راولپنڈی کے تھانہ نصیر آباد میں 4 سالہ بچے احمد پر ناقابلِ ضمانت دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا۔
ایف آئی آر کے متن میں کہا گیا کہ بچے نے میاں بیوی پر اینٹوں اور پتھروں سے حملہ کیا، جس کے بعد 4 سالہ احمد کو ایڈیشنل سیشن جج سہیل انجم کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
عدالت نے مدینہ کالونی میں لڑائی جھگڑے کے مقدمے میں 4 سالہ بچے کی نامزدگی پر حیرانی کا اظہار کیا اور تھانہ نصیرآباد کو ہدایت کی کہ اس بچے کا نام فوری طور پر ایف آئی آر سے خارج کیا جائے۔
چار سالہ بچے احمد کو عدالت میں پیش کرنے پر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے پولیس پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور تفتیشی افسر کی سرزنش کی۔
تھانہ نصیرآباد پولیس نے رواں سال 28 اپریل کو عبدالسلام کی مدعیت میں مقدمہ نمبر 614 درج کیا تھا، جس میں الزام تھا کہ اس کے پڑوسی غلام مصطفیٰ نے بھینس باندھنے کے تنازع پر اسے تشدد کر کے زخمی کردیا۔
اس مقدمہ میں غلام مصطفیٰ ڈیڑھ ماہ جیل میں رہنے کے بعد جب واپس آیا تو اس نے اسی مقدمہ میں کراس ورژن کے لیے درخواست دی۔
پولیس نے مقدمہ نمبر 614 میں کراس ورژن کے تحت غلام مصطفیٰ کی مدعیت میں مخالف پارٹی کو نامزد کردیا، جس میں الزام تھا کہ گھر کے باہر کچرا پھینکنے سے منع کرنے پر عبدالسلام، محمد ولی خان اور 4 سالہ احمد نے اینٹوں اور پتھروں سے حملہ کر کے اسے اور اس کی بیوی کو زخمی کردیا تھا۔
چار سالہ بچے کی درخواست ضمانت کی پیروی کے لیے بچے کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ تھانہ نصیرآباد پولیس نے آنکھیں بند کر کے مقدمہ درج کیا۔
وکیل نے مزید کہا کہ 4 سالہ احمد پر جو دفعہ لگائی گئی اس کی سزا 10 سال ہے، لہٰذا ایس ایچ او تھانہ نصیر آباد اور تفتیشی افسر کیخلاف کاروائی ہونی چاہیے۔
عدالت نے مقدمے کے تفتیشی افسر کو طلب کر کے احمد کا نام مقدمہ سے خارج کرنے کا حکم دے دیا جبکہ دوسرے بھائی کی ضمانت منظور کرلی۔