• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اِن دنوں ملک میں پسِ پردہ ہونے والے سیاسی مذاکرات ہر مجلس میں موضوعِ بحث ہیں۔ ذرایع ابلاغ انہیں بیک چینل مذاکرات، بیک ڈور مذاکرات، ٹریک ٹُو یا بیک چینل ڈپلومیسی وغیرہ کہہ رہے ہیں۔ ان سب اصطلاحات کا جامع مفہوم ایک ہی ہے،یعنی فریقین کے درمیان ایسی گفت و شنید جو پسِ چلمن جاری ہو۔لیکن یہ کس قسم کے مذاکرات ہوتے ہیں اور کیوں کیے جاتےہیں؟

سیاست کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ دوسری جانب یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ امکانات کا فن ہے۔ یعنی سادہ لفظوں میں یوں سمجھ لیجیے کہ اگر کل کے ایک دوسرےکےخون کےپیاسےسیاسی حریف عوام کے سامنے آج گلے ملتے ہوئے یا مذاکرات پر آمادہ نظر آئیں تو یہ یقینا کسی ’’امکان‘‘کا نتیجہ ہوگا۔

ایسا ملکی اور عالمی،دونوں سطح کی سیاست میں ہوتا ہے۔ لیکن ایسا ہونے کے پیچھےدونوں طرف کے کرداروں یا کسی غیر جانب دار فرد یا ادارے کی کچھ کوششیں ہوتی ہیں جو بدترین حالات میں بھی خاموشی سے جاری رہتی ہیں۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر فریقین مذاکرات پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور مذاکرات کرتے بھی ہیں تو اسے عوام کی نظروں سے چھپایا کیوں جاتا ہے،اس کوشش کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے اورایسی کسی کوشش یا اقدام کو اخفامیں رکھنے کے پیچھے کیا مقصد کار فرما ہوتا ہے۔

ان سوالات کے جواب جاننے سے پہلے ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ سیاست میں دو باتوں کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ اوّل،وقت اور دوم،کسی تاثر،تصوّر یا خیال کی۔ اس شعبے میں کوئی کتنا ہی اچھا قدم اگر مناسب وقت پر نہ اٹھایا جائےتو اس کی افادیت اکثرصفر ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح اگر کسی سیاست داں کے کسی اقدام کی وجہ سے عوام میں اس کے بارے میں کوئی غلط تاثر،تصوّر یا خیال پیدا ہوجائے تو اس سے اس سیاست داں اور اس کی جماعت کو طویل عرصے تک اس کی قیمت چکانی پڑتی ہے ۔چناںچہ سیاسی سفر کے دوران بعض اوقات سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کو ایسے مراحل درپیش ہوتے ہیں جب وہ اپنے مخالفین کے ساتھ بند گلی میں پہنچ جاتے ہیں جہاں سے دونوں کے لیے باعزّت انداز میں نکلنے کا راستہ نہیں ہوتا۔بالکل ایسا ہی عالمی سیاست میں بھی ہوتا ہے۔

ایسے میں فریقین کو یہ احساس ہوتا ہے یا بعض صورتوں میں احساس دلایا جاتا ہے کہ ان کے پاس اب مذاکرات کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔یہ احساس دلانے والے بعض اوقات فریقین کے اینے گھر کے لوگ ہوتے ہیں اور بعض اوقات باہر کے لوگ ۔لیکن ایسے حالات میں فریقین کے لیے باہم مذاکرات کرنااپنی سیاسی ساکھ داؤ پر لگانے کے مترادف ہوتا ہے۔ چناںچہ اسے بچانے اور فریقین کی فیس سیونگ کے لیے مذاکرات کو پسِ پردہ رکھنے پر اتفاق کیا جاتا ہے۔

اس کا فایدہ یہ ہوتا ہے کہ عوام میں تاثر پیدانہیں ہوتا کہ عوام کے سامنے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نظر آنے والے سیاست داں وقت پڑنے پر باہم مذاکرات کرلیتے ہیں۔ دوسرا فایدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بعض ایسے حسّاس موضوعات پر گفتگو کرکے کسی نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں جن پر عوام کے علم میں آنے پر عوامی دباؤکی وجہ سے گفتگو کرنا ممکن نہیں ہوتا ۔بعض اوقات ایسے مذاکرات کے نتائج عوام کے علم میں آنے کے بعد بھی سیاست دانوں کے لیے شدید مسائل پیداکرتے ہیں اور ان کی سیاسی ساکھ کو شدید نقصان پہنچتا ہے ،لیکن حقیقی اور بڑے سیاست داں ملک اور قوم کے مفاد میں یہ خطرہ مول لے لیتے ہیں۔

پسِ پردہ ہونے والے مذاکرات کی کئی جہتیں اور پرتیں ہوتی ہیں۔ مثلا ان مذاکرات پر آمادہ ہونے سے پہلے فریقِ مخالف پر زیادہ سے زیادہ عوامی دباؤ ڈالا جاتا ہےتاکہ اپنی زیادہ سے زیادہ باتیں منوائی جاسکیں، مذاکرات کے دوران ایسا تاثر دیا جائے کہ اگریہ مذاکرات ناکام ہوگئے تو اس سے مجھ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ،لیکن فریقِ مخالف بُری طرح متاثر ہوگا۔ یا پھر یہ تاثر کہ اگر ناکامی ہوئی تو کوئی بہت بڑا بھونچال آجائے گاجس کی لپیٹ میں آنے سے کوئی نہیں بچ سکے گا،وغیرہ وغیرہ۔

ان مذاکرات کے لیے بعض اوقات بہت احتیاط سے نکات طے کیے جاتے ہیں اور بعض اوقات صرف اُس نکتے پر بات کرنے پر رضامندی ظاہر کی جاتی ہے جو اُس وقت وجہ نزع ہوتا ہے۔پھر یہ کہ مذاکرات کام یاب ہونے کی صورت میں ان کا اعلان اس طرح کیا جانا کہ کسی فریق کی سبکی نہ ہو بلکہ دونوں ہی اپنی جیت کا دعوی کرسکیں یا کم از کم عوام میں ایسا ہی تاثر جائے۔

ایسے مذاکرات کا اہتمام و انصرام کرنے والے سہولت کار اور ان میں حصّہ لینے والے مذاکرات کار کہلاتے ہیں۔ لیکن یہ ضروی نہیں ہے کہ سہولت کار صرف مہتمم ہی ہو یا اس میں مذاکرات کا حصّہ بننے کی صلاحیت نہ ہو ۔بعض اوقات سہولت کار ایسے مذاکرات کا حصّہ بھی بنتے ہیں اور ضامن بھی۔یہ سارا عمل وسیع اصطلاح میں سفارت کاری بھی کہلاتا ہے، بالخصوص عالمی یابین الاقوامی معاملات میں۔

جب دنیا میں کہیں ایسے مذاکرات ہونے کی خبر آتی ہے تو بے طرح اردو کے ممتاز شاعر امداد علی علوی کے درجِ ذیل اشعار یاد آجاتے ہیں جو دونوں طرف کے خیالات کی عکّاسی کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں:

پسِ پردہ یاں کوئی آیا ہوا ہے

یہ غوغا کسی کا مچایا ہوا ہے

بُتِ سنگ دل آپ اور یہ عنایت

یہ دل تو کسی کا چُرایا ہوا ہے

نہ چشمِ حقارت سے دیکھو بشر کو

کہ قطرہ میں دریا سمایا ہوا ہے

تم اتنے سے ہو کر یہ فتنہ، یہ شوخی

یہ جو بن کسی کا اڑایا ہوا ہے

اعصاب شکن لمحات

ایسے مذاکرات عموما اعصاب شکن ماحول میں ہوتے ہیں، کیوں کہ فریقین کا بہت کچھ داؤپر لگا ہوا ہوتا ہے۔ ایسے میں سفارت کاری اور سفارت کاروں کا سخت امتحان ہوتا ہے کہ وہ فریقین اور ماحول کو ٹھنڈا رکھیں اور کم سے کم وقت میں کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کریں۔ خارجہ امور میں ایسا کرنے کے لیے عموما سفارت کاروں کو خاص تعلیم اور تربیت دی جاتی ہے۔یہ تعلیم و تربیت وقت گزرنے کے ساتھ وجود میں آئی ہے۔

جدید ڈپلومیسی کا ارتقا

کہاجاتا ہے کہ باقاعدہ ڈپلومیسی کا ارتقا بارہ سو قبلِ مسیح میں یونان کی شہری ریاستوں میں ہوا اُس وقت ہواجب انہوں نےباہمی طور پر سفارتی نمائندوں کا تبادلہ کیا۔ یونان کےسفارتی نظام کے بارے میں تھیوسی ڈائیڈ ہمیں کافی معلومات فراہم کرتا ہے، مثلا چارسو بتّیس قم میں اسپارٹا میں منعقدہ ایک کانفرنس میں اسپارٹا کی ریاست اور اس کے اتحادیوں باہم یہ مشورہ کیا کہ انہیں ایتھنز کے خلاف کیا کارروائی کرنی چاہیے۔ ڈپلومیسی کی کئی اقسام بیان کی جاتی ہیں ،مثلا، دوطرفہ ڈپلومیسی، کثیرالاطراف ڈپلومیسی، ذاتی ڈپلومیسی، جمہوری ڈپلو میسی ،کھلی اور خفیہ ڈپلومیسی، آمرانہ ڈپلومیسی ،کانفرنس ڈپلومیسی ،وغیرہ وغیرہ۔

سفارت کاری:ناممکن کو ممکن بنانے کا فن

سفارت کاری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ناممکن کو ممکن بناے کا فن ہے اور ایک اچھا سفارت کار ایساکرکے دکھاتا ہے۔ کبھی وہ اس کے لیے پسِ پردہ کوششیں کرتا ہے تو کبھی اعلانیہ۔ بعض اوقات حالات اتنے گمبھیر ہوتے ہیں کہ ان میں کسی بھاری بھرکم شخصیت کی مداخلت ناگزیر ہوتی ہے،بہ صورتِ دیگر اچھے سے اچھے سفارت کارکے بھی ناکام ہونے کا بہت زیادہ خدشہ ہوتا ہے اور ناکامی کی صورت میں ملکی یا بین الاقوامی سطح پر کسی بڑے نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔ ایسے میں بعض اوقات سیاسی راہ نماؤں اور عمایدینِ مملکت کوبھی ان کوششوں میں شامل ہونا پڑتا ہے۔ لیکن عموما ان کی ایسی کوششوں کے پیچھے سفارت کار ہی ہوتے ہیں جوپسِ پردہ رہ کر تمام تر حکمت عملی مرتّب کرتے ہیں۔اس کی ایک واضح مثال جنرل ضیاالحق کی کرکٹ ڈپلومیسی قراردی جاتی ہے۔

کرکٹ ڈپلومیسی

یہ 18نومبر1986کی بات ہے جب بھارتی فوج نے براس ٹیک کے نام سے فوجی مشقیں شروع کیں اور اس مقصد کے لیے راجستھان میں پاکستانی سرحد کے قریب جمع ہو گئیں۔ یہ مشقیں کتنی بڑی تھیں اور اس میں کتنی فوج حصہ لے رہی تھی، اس بارے میں کہا جاتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا نے اس سے بڑی جنگی مشقیں نہیں دیکھی ہوں گی۔ یہ مشقیں نیٹو کی کسی بھی فوجی مشق سے بڑی تھیں۔ ان فوجی مشقوں کے تین مقاصد بیان کیےگئے تھے:

٭کسی تصادم کی صورت میں فوجی نقل و حرکت کی اہلیت کو جانچنا۔

٭یہ جاننا کہ تصادم کی صورت میں بھارتی فوج لاجسٹک سپورٹ کی کتنی اہلیت رکھتی ہے؟

٭ پاکستان کی مسلح افواج پر اپنی بالادستی ثابت کرنا۔

ان مشقوں میں حصّہ لینے والے فوجیوں کی تعداد چار سے چھ لاکھ کے درمیان تھی۔ ان مشقوں کا دائرہ بھارت کے راجستھان یعنی پاکستان کے بہاول پور اور رحیم یار خان سے لے کر پاکستان کی بحری سرحدوں، کورنگی کریک تک وسیع تھا اور اسے انڈین ایئر فورس کا تعاون بھی حاصل تھا۔ اس آپریشن میں انڈین ایئر فورس کے جیگوار اور مگ طیاروں نے حصہ لیا۔ ان طیاروں نے مبینہ طور پر بعض اوقات پاکستان کی فضائی حدودکی خلاف ورزی بھی کی۔

برصغیر کے دو روایتی حریف ملکوں کی سرحد پر فوج کے اتنے بڑے اجتماع پر عالمی ذرایع ابلاغ کی توجہ شروع ہی سےمرکوز ہو گئی تھی جس نے اسے ’’جنگ پر اُکسانے کی سرگرمی‘ ‘قرار دیاتھا۔

ان مشقوں کو پاکستان اپنی سلامتی کے لیے خطرہ محسوس کررہا تھا۔ یہی خطرہ تھا جس کے پیش نظر پاکستان نے اپنی آرمرڈ کور اور سدرن ایئر کمانڈ کوبھارتی سرحد کے قریب تعینات کر دیا تھا۔ پاکستان محسوس کرتا تھا کہ اس دوران اس کی ایٹمی تنصیبات پر بھی حملہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی سبب سے حفاظتی انتظامات کو مزید سخت کر دیا گیا اور فوج ہائی الرٹ پر چلی گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ بھارتی عزایم کا تعلق مشرقی پنجاب میں سکھوں کی علیحدگی کی تحریک سے بھی تھا، کیوں کہ یہ وہی زمانہ تھا جب پاکستان پر سکھوں کی علیحدگی کی تحریک کی حمایت کا الزام عاید کیا جاتا تھا اور ان مشقوں کا مقصد پاکستان کو سزا دینا بھی تھا۔ یاد رہے کہ اس وقت بھارتی قیادت، جس میں وزیر اعظم راجیو گاندھی اور وزیر داخلہ شامل تھے، نے پارلیمنٹ میں بیان دیا تھا کہ علیحدگی پسندوں کی حمایت کرنے پر پاکستان کو سبق سکھایا جائے گا۔ پھر یہ کہ ان دنوں پاکستان کے صوبے سندھ میں صورت حال خاصی خراب تھی۔ بھارت اس صورت حال سے بھی فایدہ اٹھانے کا خواہش مند تھا۔

دفاعی مبصرین کے مطابق اتنے بڑے پیمانے پر فوجی مشقوں کے نتیجے میں پاکستان کے ذہن میں پیدا ہونے والے شبہات نادانستہ تھے اور نہ یہ کسی حادثے کا نتیجہ تھے، بلکہ یہ جنرل سندرجی کا ایک سوچاسمجھا منصوبہ تھا۔وہ چاہتے تھے کہ ان مشقوں کے ذریعے پاکستان کو مشتعل کر دیں تاکہ وہ کوئی جوابی کارروائی کرے۔ یہ کارروائی انہیں پاکستان کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کا موقع فراہم کر دے گی۔ لیکن جیسے ہی براس ٹیک مشقیں شروع ہوئیں، پاکستان نے مسلح زمینی دستوں اور سدرن ایئر کمانڈ کوبھارتی پنجاب کی سرحد پر تعینات کر دیا۔ اس کارروائی کے تھوڑے دن بعد پاکستان نیوی نے بحیرہ عرب کے شمالی علاقے میں جنگی جہاز اور آب دوزیں تعینات کر دیں۔ ستمبر1987تک حالات اس قدر بگڑ چکے تھے کہ سرحدوں پر تعینات دونوں ملکوں کے فوجی ایک دوسرے کے نشانے پر تھے۔

دفاعی مبصرین کے بہ قول ان حالات میں کم وسائل کے باوجود پاکستان بھارتی منصوبے کو ناکام بنانے میں یوں کام یاب ہواکہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی حکمت عملی بہتر تھی اور وہ نہایت خاموشی کے ساتھ اپنی فوج کو حرکت میں لے آیا تھا۔ بھارتی فوج کی مشقوں کی تمام تر تفصیلات پہلے ہی پاکستان حاصل کر چکا تھا۔ اس طرح اسے کئی معاملات میں آسانی حاصل ہو گئی تھی۔ اسی زمانے کی بات ہے جب پاکستانی وزارت خارجہ نے ایک رات نصف شب کوبھارتی ہائی کمشنر ،ایس کے سنگھ کو طلب کیا۔ 

پاکستان کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ زین نورانی اُن کے منتظر تھے۔ نورانی نے ایس کے سنگھ کو خبردار کیا کہ اگر پاکستان کی سالمیت اور جغرافیائی حدود کو نقصان پہنچانے کی کوئی کوشش کی گئی توبھارت کو ناقابل یقین نقصان کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ایس کے سنگھ یہ سُن کر حیرت زدہ رہ گئے اور انہوں نے سوال کیا کہ کیا آپ مجھے ممبئی پر ایٹمی حملے کی دھمکی دے رہے ہیں؟ زین نورانی نے جواب دیا کہ یقینا۔۔۔ ایسا ہو سکتا ہے۔ اس حملے کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان مکمل جنگ چھڑ سکتی تھی۔ امریکی صدر نے یہ اطلاع نان پیپرز اور ایک خط کے ذریعے جنرل ضیا الحق تک پہنچا دی تھی۔

اُن دنوں بھارت نے پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ پنجاب کے علاقوں میں بھارت کے ساتھ لگنے والی سرحدسےاپنی فوج ہٹالے۔ پاکستان نےیہ فوج راجستھان میں پاکستانی سرحدسے ملحق علاقوں میں بھارتی فوج کے غیر معمولی اجتماع کے بعد تعینات کی تھی۔ بھارت کے اس مطالبے کے بعد کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا اور یوں پاکستان کی بری اور فضائی افواج فوری طور پر ہائی الرٹ پر چلی گئی تھیں۔ ان اطلاعات کے بعد خطے میں جنگ کے بادل چھا گئے جس کے اثرات عالمی سطح پر بھی محسوس کیے گئے۔

ممتاز امریکی سفارتکار ڈینس کک نے لکھا ہے کہ ان اطلاعات کے بعد امریکا اور سوویت یونین کے درمیان رابطے ہوئے تاکہ اس بحران کو ٹالا جا سکے۔ انہوں نے اس سلسلے میں امریکی صدر رونالڈ ریگن کے جنرل ضیا الحق اور راجیو گاندھی کے ساتھ ٹیلی فونک رابطوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ صدر ریگن نے دونوں رہنماؤں پر زور دیا تھا کہ وہ کشیدگی کا خاتمہ کریں۔ یہ پس منظر تھا جس میں جنرل ضیاالحق نے 1987میں بھارت کے دورے کا فیصلہ کیا۔ 

اس دورے کے بارے میں بتایا گیا کہ انہیں اس کی دعوت انڈین کرکٹ بورڈ نے دی تھی۔ بھارت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کو جب اس دورے کی اطلاع ہوئی تو وہ ان کا استقبال کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے، لیکن قریبی مشیروں اور حزب اختلاف کے مشورے پر انہوں نے ضیاالحق کا خیر مقدم کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن ان کے انداز میں سرد مہری تھی اور گرم جوشی نام کو نہ تھی۔کہا جاتا ہے کہ ان دونوں شخصیات کے اقدام کے پیچھے سفارت کار تھے جو حالات کی سنگینی کو بھانپ کر ماحول کر ٹھنڈا کرنا چاہتے تھےتاکہ کوئی حادثہ نہ ہوسکے۔

کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیا نے راجیو گاندھی کا رویہ محسوس کیا، لیکن اپنے چہرے پر مسکراہٹ برقرار رکھی ۔ پھر وہ جب جے پور روانگی کے لیے اٹھے تو راجا ظفرالحق کے بہ قول راجیو گاندھی انہیں رخصت کرنے کے لیے اٹھے تو جنرل ضیا الحق نے ان سے کہا کہ آپ ذرا میری بات سُن لیں۔ یہ کہہ کر وہ اپنے میزبان کو ایک طرف لے گئے اور ان سے کہا کہ 'جو کچھ آپ کے پاس ہے، وہی کچھ ہمارے پاس بھی ہے یعنی ایٹمی اسلحہ۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ آپ سرحدوں سے اپنی فوجیں ہٹالیں۔ یہ سُن کر راجیو گاندھی کے ماتھے پر پسینہ آ گیاتھا۔

جنرل ضیا کےاس دورےکے بعد صورت حال بدل گئی اور27فروری کوبھارت کا سرکاری وفد اسلام آباد پہنچ گیا۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان معاہدہ طے پا گیا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں پاکستان اوربھارت کی افواج کشیدگی سے پہلے کی پوزیشن پر چلی گئیں۔ پاکستان کے فوجی حکم راں کے اس غیر معمولی دورے کے بارے میں امریکی اخبارواشنگٹن پوسٹ کے نمائندے، رچرڈ ونٹراب نے ایک دل چسپ رپورٹ لکھی۔ انہوں نے لکھا کہ اس دورے کے ذریعے جسے ’’کرکٹ ڈپلومیسی‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے، پاکستان، بھارت پر سفارتی سبقت حاصل کرتا دکھائی دیتا ہے۔ یاد رہے کہ خود جنرل ضیا الحق نے اپنی پہل کاری کو ’’کرکٹ برائے امن‘‘ کا نام دیا تھا۔

چین، امریکا تعلقات کے لیے پاکستان کی پسِ پردہ سفارت کاری

1971میں امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے چین کا ایک خفیہ لیکن تاریخ ساز دورہ کیا تھا۔ اُس وقت پاکستان گمبھیر سیاسی بحران میں گھرا ہوا تھا اور امریکا سرد جنگ کے اُس زمانے میں چین اور سویت یونین کے درمیان پیدا ہونے والی نظریاتی اور تزویراتی خلیج کا فایدہ اٹھانا چاہتا تھا۔ پاکستان میں عام انتخابات ہو چکے تھے، مگر حکومت سازی میں تاخیر ہو رہی تھی اور مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کا آغاز ہو چکا تھا۔

سوویت یونین بھارت کے ساتھ امن، دوستی اور تعاون کے معاہدے پر دست خط کرچکا تھا۔ اس معاہدے میں تزویراتی تعاون پر زور دیا گیا تھا اور اس معاہدے کے بعدبھارت کا روایتی غیر جانب داری کا دعویٰ کم زور ہو گیا تھا۔ سویت یونین غالباً پاکستان کے چین کی جانب زیادہ جھکاؤ کی وجہ سے ناراض بھی تھا۔

ان تمام حالات اور واقعات کے پسِ منظر میں امریکا ، پاکستان کو چین کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری کے لیے کلیدی کردار ادا کرنے کے لیے استعمال کر رہا تھا۔دوسری جانب سوویت یونین اور چین کے درمیان تعلقات میں سرد مہری بڑھ رہی تھی۔ رچرڈ نکسن پہلے امریکی راہ نما تھےجنہوں نے اس کام کا آغاز کیا۔ صدر بننے سے پہلے ہی انہوں نے ایک مضمون میں چین کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ 

صدر منتخب ہونے کے بعد 1969میں انہوں نے پاکستان کے اس وقت کے صدر یحییٰ خان سے چین سے خفیہ رابطہ کاری کے لیے مدد مانگی تھی۔اس خفیہ دورے کےلیے مکمل منصوبہ بنایا گیا اور اسے دنیا کی نظروں سے مکمل مخفی رکھنے کے لیےنقلی کسنجر کی سربراہی میں ایک وفد کو پرفضا پہاڑی مقام مری بھیجا گیا تھا۔

دراصل امریکا نے پاکستان کے علاوہ رومانیہ اور پولینڈکے ذریعے بھی چینی قیادت کو رابطے کے پیغامات بھجوائےتھے۔ان کوششوں کے نتیجے میں بالآخر اُس وقت کےامریکا کے قومی سلامتی کے مشیر ،ہنری کسنجر پاکستان کی وساطت سے نو جولائی کوخفیہ مشن پر بیجنگ گئے اور 11جولائی کو واپس آگئے تھے۔کسنجر کے اس خفیہ دورے کے اگلے برس فروری میں صدر رچرڈ نکسن نے چین کا دورہ کیا، اور اس طرح عالمی بساط پر امریکا نے دو کمیونسٹ طاقتوں کے درمیان اختلافات کو اپنے لیے استعمال کرنے کے پروگرام کا آغاز کیا۔

اگرچہ پولینڈ کے ذریعے سفیروں کی سطح پر ہونے والے رابطوں کی وجہ سے امریکا کو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ چین بھی امریکا سے تعلقات کی بہتری میں دل چسپی رکھتا ہے، لیکن ٹھوس پیش رفت کے لیے ابھی کوئی کام نہیں ہوا تھا۔رچرڈ نکسن یکم اگست 1969 کو پاکستان کے دو روزہ دورے پر آئے جہاں ان کی صدر آغا محمد یحییٰ خان کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ اس طرح چین سے رابطے کے لیے امریکا نے پاکستان کو بہترین ذریعہ قرار دیا۔

ان کوششوں کے دوران ہر بات انتہائی صیغہِ راز میں رکھی گئی تھی۔جولائی اور اگست میں نچلی سطح کی رابطہ کاری کے سلسلے میں پیش رفت ہونا شروع ہوئی۔ پولینڈ کے ذرائع سے بھی رابطے قائم ہوئے۔اُنّیس جون 1971 کو آغا ہلالی نے کسنجر کو پیغام بھیجا کہ انہیں صدر یحییٰ خان نے بتایا ہے کہ بالآخر چین جانے کے انتظامات ہو گئے ہیں اور وہ ہمارے دوست (نکسن) کو ان کے فُول پروف ہونے کی یقین دہانی کرا دیں۔ اسی پیغام میں کسنجر سے کہا گیا تھا کہ وہ آٹھ جولائی کو پاکستان پہنچ جائیں۔

کسنجر نے اِکّیس جون کو آغا ہلالی سے ملاقات کی جس میں انتظامات کی تفصیل کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور اس مشن کے خفیہ ہونے کے بارے میں اپنی تسلّی کی۔جب کسنجر چین کے دورے پر روانہ ہو رہے تھے تو اسی وقت پہاڑی مقام (مری) کی جانب ایک نقلی کسنجر کو روانہ کیا گیا تھا تاکہ یہ تاثر یقینی بنے کہ وہ مری آرام کے لیے جا رہے ہیں، نہ کہ کسی خفیہ مشن پر۔ اس کے بعد کسنجرچین گئے۔ سب باتیں منصوبے کے مطابق ہوئیں اور تاریخی دورہ کام یاب رہا۔ چین سےواپسی کے بعد پیرس سے ہوتے ہوئے کسنجر واشنگٹن ڈی سی پہنچے اور پھر پندرہ جولائی کو صدر نکسن نے کسنجر کے چین کے خفیہ مشن کے بارے میں ایک بیان جاری کیا۔

کسی بھی اعلیٰ امریکی عہدے دار کا چین کا یہ دورہ پاکستان کی وساطت سے ممکن ہوا تھا اور اس میں صدر نکسن کے کہنے پر پاکستان کے صدر یحییٰ حان نے اہم کردار ادا کیا تھا جنہوں نے چینی راہ نماؤں کو اپنے اثر و نفوذ کے ذریعے بات چیت کے لیے قائل کیا۔