• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چیئرمین بلاول کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کی فکری سیاسی وراثت کے معاملے میں نانا ماں اور ان کے والد کو مختلف اسباب کی علامت بنا کر بلاول کو ان میں سے کسی ایک کا انتخاب اور باقی دو کی نفی کرنے کی سوچ ایک ذہنی قسم کی بھاپ کے سوا کچھ نہیں، پیپلز پارٹی کی فکری وراثت تاریخ کے متفقہ تسلسل میں گنُدھی ہوئی ہے، اس متفقہ اثاثے میں سطحی چھان پھٹک کر کے بلاول کو پیپلز پارٹی کے تناظر میں نظریاتی تفرقے، کی راہیں تجویز کرنے کے عمل ہی کو ذہنی تشنج یا بہکائو کا نتیجہ قرار دیا گیا تھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان پیپلز پارٹی کی تاریخی وضاحت اور عملیت کے لئے صراط مستقیم اختیار کیا ہے۔ لگتا ہے امکانات کی ایک دنیا ان کے سامنے بھی ہے، حالات کی مشکلات اور دھندلاہٹ کا بھی وہ ادراک کر سکتے ہیں، صادق آباد کے جلسے میں بلاول کے خطاب کا پس منظر اس امید کا ثبوت محسوس ہوتا ہے جب انہوں نے عوام سے کہا ’’بھٹو اور بے نظیر نے غریبوں کے لئے اپنے ہی طبقے سے بغاوت کی، اب جھنڈا میں نے اٹھا لیا ہے، سزا جانتا ہوں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے دولت اور زمینو ںکی تقسیم کی بات کر کے عدم مساوات کے خلاف بغاوت کی میں غریبوں کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑوں گا، غریب کے حق میں بات کرنا آسان لیکن ان کے لئے قربانی دینا بہت مشکل ہے، بے نظیر نے دہشت گردوں کے خلاف آواز اٹھائی جس پر نہتی خاتون کو شہید کر دیا گیا۔‘‘ کیا بلاول کے الفاظ آپ کو پاکستان پیپلز پارٹی کے نظریاتی سمندر میں اتر جانے پر مجبور نہیں کر دیتے؟
بلاول بھٹو زرداری قیادت کے ان لمحات میں یقینی طور پر سوالات، امکانات، شبہات اور نو عمر جوش کی خطرناک فراوانیوں کے دائروں میں آگے بڑھ رہے ہیں، اس میں کیا حرج ہے؟ آپ کسی ملکی یا نظریاتی جنگجو کو میدان کارزار میں قدم رکھے بغیر اسے مطلوبہ معیار تک کیونکر پہنچا سکتے ہیں یا وہ از خود کیونکر پہنچ سکتا ہے؟ بظاہر بہت سی تجاویز کی دل کشی اور ساحری آپ کو بے ساختہ اپنی جانب کھینچ لیتی ہے تاہم سیاسی وادی کے عمل پذیر تقاضوں کی دنیا کو رومانس کے گیتوں کی نذر نہیں کیا جا سکتا، وقت آ سکتا ہے مگر اس وقت کے لئے آپ کو بسا اوقات عمر خضر کے محاورے کی روح جیسا انتظار کرنا پڑتا ہے، آپ دیکھ لیں ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، بیگم نصرت بھٹو، شاہنواز بھٹو، مرتضیٰ بھٹو، اپنی جانیں وار گئے، پھر بھی ابھی ’’غریب کا قہقہہ‘‘ عمر خضر کی روح جیسے انتظار ہی کی صدا دے رہا ہے، اس لئے جو ترقی پسند بلکہ صحیح معنوں میں عوام دوست دانشور بلاول کو فاطمہ بھٹو، ذوالفقار جونیئر کو ساتھ لے کر اپنے ہمرکاب لانے کا خیال پیش کر رہے ہیں ان کی شدت جذبات کو خراج تحسین تو پیش کیا جا سکتا ہے، سیاست کے ذہنی تقاضوں کو یکدم رومانس کی مالا نہیں پہنائی جا سکتی! بلاول کو سوالات، امکانات، شبہات اور نو عمر جوش کی خطرناک فراوانیوں کی گھاٹیوں میں اپنے سیاسی توازن کے راستے پر گرفت حاصل کرنے دیں، یہ ساری عوامی آرزو ئیں خود بخود پاکستان پیپلز پارٹی کے ترقی پسندانہ، لبرل، اسلامی اور عوامی سفر کے حصوں اور قوتوں میں ڈھلتی جائیں گی!
کیا آپ ماضی قریب سے ابھرتے ایک منظر کو پھر سے دیکھنے اور یاد کرنے پر آمادہ ہیں؟ تو پھر دیکھیں اور یاد کریں۔ 2013ء کے عام قومی انتخابات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی شکست پر کن پیغامات، پیش گوئیوں اور تجزیوں کی بارشیں برسائی گئیں؟ کہا جا سکتا ہے تعصب اور ابتذال کی تمام حدود پار ہوئیں ایسے مخالفوں کی انسانیت سوز روایت بھی یہی رہی۔ 2013ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی شکست، ان کے ترستے خواب کی عملی تعبیر کے طور پر سامنے آئی، پھر سیاسی وقت کے تاریخی عمل سے برآمد کیا ہوا؟ برآمد یہ ہوا کہ آصف علی زرداری اور بی بی شہید کا فرزند ارجمند پاکستان پیپلز پارٹی کا علم تھامے پاکستان کی فضائوں میں برسرپکار اور برسرکار ہے، پاکستانی عوام اور پاکستان میڈیا کی وہ سب سے پُر کشش اور سنسنی خیز شخصیت ہے اس کی آواز اور اس کا وجود ان کے لئے ایسی نایاب انہونی ساعت ہوتی ہے جب انہیں اپنے دلوں کی دھڑکنیں خوشگوار اور اپنے اظہار کے روح پرور نظاروں کا فطری ساماں مہیا ہو جاتا ہے، بلاول سامنے آتا ہے، پاکستانی عوام اور میڈیا، دونوں کی نظریں نہال اور وطن کی دھرتی پر دھمال برپا ہو جاتی ہے، دھمال جس میں ذوالفقار علی بھٹو کی قد آوری، بی بی شہید کی بہادری اور آصف علی زرداری کی صابرانہ ازم آرائی کے گجر بجتے سنائی دیتے ہیں!
کیا آج 2016ء تک پہنچتے پہنچتے پاکستان پیپلز پارٹی قومی سیاسی افق پر وہی 1970ء جیسی ’’مرکزی اہمیت‘‘ کی زندہ علامت نظر نہیں آتی؟ یونہی نہیں کہا جا رہا:’’ان حالات میں ملک کو بائیں بازو کی ایک ترقی پسند جماعت کی ضرورت ہے، اگرچہ گزشتہ ایک ربع صدی سے پی پی تبدیل ہو چکی لیکن اس کا تشخص ایک سیکولر جماعت کے طور پر اب بھی برقرار ہے، اگر اصلاحی عمل کے ذریعے اسے پٹری پر ڈال دیا جائے تو یہ اب بھی ان افراد کی توجہ حاصل کر سکتی ہے جو دائیں بازو کی جماعتوں سے تنگ ہیں۔ یہ بلاول کے لئے ایک سنہرا وقت ہے، اگر وہ اس سے فائدہ اٹھا سکیں تو وہ پی پی کے ’’تن مردہ‘‘ میں زندگی کی روح دوڑا سکتے ہیں!‘‘ اور نہ ہی پاکستان کے عوام کو بلا کسی مقصد کے یہ باور کرایا گیا کہ! ’’پیپلز پارٹی اپنی لیڈر کے قتل کے صدمے سے باہر نہیں آئی تھی، اس لئے کچھ کہنا مشکل تھا کہ اب اس کی حکمت عملی کیا ہو گی؟ سیاسی اعتبار سے ملک ایک ایسی بند گلی میں گھس گیا تھا جہاں سے نکلنے کا راستہ کسی کو نظر نہیں آ رہا تھا؟ ہر شخص سہما ہوا تھا، ایک مہیب سناٹا تھا اور اس میں سندھ میں بھڑکی ہوئی آگ کی مخصوص آواز، ملک ہاتھ سے نکل رہا تھا اور کوئی کچھ نہیں کر پا رہا تھا، ایسے میں لاڑکانے سے ایک آواز ابھری ’’پاکستان کھپے، پاکستان کھپے‘‘ اس آواز نے سندھ میں علیحدگی کے طوفان کے سامنے بند باندھ دیا۔ ’’پاکستان کھپے‘‘ (پاکستان چاہئے) کا یہ نعرہ آصف علی زرداری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی قبر پر کھڑے ہو کر اس ہجوم کے سامنے لگایا تھا جو ’’نہ کھپے، نہ کھپے، پاکستان نہ کھپے کا شور مچا رہا تھا‘‘۔ زرداری کے دو لفظوں نے پاکستان جوڑنے کا وہ کام کر دکھایا جو اس ملک میں کوئی شخص، جماعت یا ادارہ کرنے کے قابل نہ تھا۔
تسلیم کئے بغیر کوئی دلیل اور راہ باقی نہیں رہی یعنی جس طرح ’’مائنس ون‘‘ اور ’’مائنس تھری‘‘ فارمولوں کے مقدر میں ناکامی، نامرادی، بدنامی، رسوائی، خواری، بیزاری، پامالی، نارسائی اور بربادی طے ہو چکی ہے، اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی جیسی قومی سیاسی جماعتیں قومی یا بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹوں کے ہاتھوں عوام کی عدالت سے مسترد نہیں ہوتیں، تاریخ کی شہادت ایسے فارمولوں کو زندہ درگور کررہی ہے، تازہ ترین سیاسی قبر اس نوٹنکی کی کھد رہی ہے جسے کراچی کی سرزمین پر چلایا جا رہا ہے!
بلاشبہ پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت پر پارٹی کی صف اول کی لیڈر شپ، پارٹی کے اندر میڈیا کے محاذ پر اس کے میڈیا کوآرڈی نیٹرز اور پیپلز پارٹی کی مجموعی صورت احوال کا بعض پہلوئوں سے نہایت ناروا بوجھ ہے، ایسے افراد موجود ہیں جنہوں نے پیپلز پارٹی کی نظریاتی تاریخ اور عوامی ساکھ کو نقصان ہی نہیں پہنچایا بلکہ پستی کی حد تک اس کے سینے میں اپنے مفادات کا خنجر گھونپا، ایسے لوگ بھی نشان زد کئے جا سکتے ہیں جنہوں نے میڈیا کے محاذ پر پارٹی کی مرکزی لیڈر شپ سے مالی دھوکہ دہی اور نافرض شناسی کے ناقابل معافی قومی جرائم کا ارتکاب کیا۔
تازہ ترین