• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چراغ طور جلائو بڑا اندھیرا ہے

ذرا نقاب اٹھائو بڑا اندھیرا ہے

بصیرتوں پہ اجالوں کا خوف طاری ہے

مجھے یقین دلائو بڑا اندھیرا ہے

میرا اور آپ کا عظیم وطن۔ قائد اعظم کی قیادت میں حاصل کی گئی پاک سر زمین۔ مزید اندھیروں میں ڈوب گئی ہے۔ بے یقینی بال بکھرائے ہمیں اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ اللہ نے بہت کرم کیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جان بچ گئی ہے۔ زخمی ہیں۔ ان شاء اللہ جلد اپنے کارکنوں کے درمیان ہوں گے۔ اکثریت تو ایک تدبر، بردباری اور تحمل کا مظاہرہ کررہی ہے۔ صرف ٹائر جلارہی ہے۔ کسی کا گھر نہیں جلارہی ہے۔ کسی سرکاری عمارت پر حملہ نہیں کررہی ہے۔ خدائے بزرگ و برتر سے یہی التجا ہے کہ سب کے گھر محفوظ رہیں۔ سب کی جانیں اس کے حفظ و امان میں ہوں۔ قادر مطلق اس کارکن کے درجات بلند کرے۔ جو اپنی جان نثار کرکے بے یارو مددگار پڑا رہا۔ جس کے بچے گریہ و زاری کرتے رہے۔

بزرگ نوجوان مائیں بہنیں سب سکتے میں ہیں۔ پاکستان میں اپنی آزادی کے 75 ویں سال میں ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر ایسی ابتلائیں کیوں نازل ہورہی ہیں۔ کیا پاکستانیوں کے مقدر میں استحکام، امن، چین، سکون نہیں ہے۔

آج اتوار ہے۔ آج ہم اپنے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں کے سوالات کا سامنا کیسے کریں گے۔ لیکن یہی نازک موقع ہے جب آپ کو بہت سوچ سمجھ کر ان سے باتیں کرنا چاہئیں۔ آج ہمیں جس انتہا پسندی، شقی القلبی، منتقم مزاجی کا سامنا ہے۔ ہمیں اپنے پیاروں کو اس کے اسباب سے آگاہ کرنا چاہئے۔ مستقبل کے پاکستانیوں کے ذہن میں یہ سوال ضرور تڑپے گا کہ وہ پاکستانی جو لاکھوں دلوں میں گھر کرجاتے ہیں۔ ان کے قتل کے لئے سازشیں کیوں کی جاتی ہیں۔

ایک انتہائی اہم محل وقوع رکھنے والی ریاست۔ امریکہ، چین، روس کے لئے بہت حساس مملکت جس کے ابتدائی سال بہت عظمت وقار اور شکوہ کے ساتھ گزرے۔

مسائل سنگین کیوں ہوتے جارہے ہیں۔ وفاق عجز کا اظہار کررہا ہے۔ المیے رُونما ہورہے ہیں۔ سوگ منانے والوں سے ہمدردی کی بجائے دائرۂ اختیار پر تکرار ہوتی ہے۔ کوئی ایسا عہدےدار نہیں ہے۔ کوئی ایسی ہستی نہیں ہے، جس کی بات سب مانتے ہوں۔ جان و مال کا تحفظ صوبائی حکومت کا بھی فرض ہے اور وفاقی حکومت کا بھی۔ مہذب ملک تو اپنے کسی عام شہری کے لاپتہ ہونے، جانبر نہ ہونے پر لرز جاتے ہیں۔ سربراہ مملکت، سربراہ حکومت سے لے کر وزراء، پولیس آفیسر سب کا منتہا و مقصود یہ ہوتا ہے کہ اس واردات کی تہ تک پہنچا جائے اور اصل ملزموں کو کٹہرے میں لایا جائے۔ اس 75 سالہ ملک میں جس کی تہذیب و تمدن کی تاریخ پانچ سے دس ہزار سال پرانی ہے۔ وہاں 22 کروڑ کی باگ ڈور ایسے افراد کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے کہ واردات کے چند لمحوں بعد ہی من گھڑت انکشافات شروع ہوجاتے ہیں۔ بڑے چھوٹے سب فلسفی بن جاتے ہیں۔ مفتی کی طرح فتوے دینے لگ جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا جو اطلاع کی اشاعت کا ذریعہ ہے۔ وہاں ہر کوئی اپنی دانش بگھارتا ہے۔ فیس بک ، ٹوئٹر، انسٹا گرام، یو ٹیوب خبث باطن کے اظہار کے پنڈال بن چکے ہیں۔ ایسے ایسے الفاظ، اصطلاحات، دشنام،اسکیچ، کارٹون نظر آتے ہیں کہ الحذر الامان۔

مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ سب سے زیادہ فراخدلی کا اظہار حکومت وقت کو کرنا ہوتا ہے۔ کیونکہ بنیادی طور پر ملک میں امن و امان اور سلامتی اس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ مہذب ملکوں میں ہر قسم کے اشتعال اور الزامات کے باوجود حکومتی عہدوں پر موجود منتخب افراد بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ سیاسی طور پر سخت دشمنوں کی عیادت کے لئے بھی پہنچ جاتے ہیں۔ جس سے بھڑکتی آگ کچھ ٹھنڈی ہوتی ہے۔ دونوں طرف کے پیروکاروں کو یہ باور آتا ہے کہ حکومت سنجیدہ ہے۔ معاملات کو سمیٹنا چاہتی ہے۔

ہمارے ہاں 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد سے شراکت اقتدار کا سلسلہ جاری ہے۔ اس لئے حکومتیں اختیارات کے باوجود کمزور ہیں۔ فیصلہ سازی کا مکمل اعتماد نہیں رکھتی ہیں۔ جمہوریت خالص نہیں کمرشل ہے، زردار ہے، سرمایہ دار ہے، الیکشن میں ٹکٹ انہی امیدواروں کو ملتے ہیں جو انتخابی مہم میں کروڑوں خرچ کرسکیں۔ سیاسی جماعتیں انتخابات نہیں لڑتیں، رئوسا اور امراء الیکشن خریدتے ہیں۔

اس بہت گہرے اندھیرے میں ایک سپریم کورٹ ہے جہاں سے روشنی کی ا مید ہوسکتی ہے۔

وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں

انہیں کہیں سے بلائو بڑا اندھیرا ہے

ابھی تک سپریم کورٹ کی بات سب مانتے ہیں۔ حکومت پنجاب کا تنازع بھی۔ عدالت عظمیٰ نے طے کروایا تھا۔ تحریک عدم اعتماد کیلئے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے نے رکاوٹیں دور کی تھیں۔ اب بھی سپریم کورٹ ہی حالات کو مزید سنگین ہونے سے روکنے کیلئے کوئی کارروائی کرسکتی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کو ساتھ بٹھاسکتی ہے۔ آئین کا بھی تقاضا یہی ہے۔ ملکی سلامتی کو خطرے سے بچانے کا راستہ بھی یہی ہے۔ سب اداروں کو اپنے دائروں میں محدود بھی سپریم کورٹ کرسکتی ہے۔ سپریم کورٹ کو ہی عوام کی خواہشات کا احساس ہوتا ہے۔ عوام طاقت کا سر چشمہ ہیں۔ آئین عوام کی تمنّائوں کا ہی مرقع ہوتا ہے۔

اس آئین کی تمہید میں پاکستان کے جمہور نے ایسے نظام کا پختہ عزم کیا ہے:

’’جس میں بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی اور ان حقوق میں قانون اور اخلاق عامہ کے تابع حیثیت اور مواقع میں مساوات ۔قانون کی نظر میں برابری، معاشرتی، معاشی اور سیاسی انصاف اور خیال اظہار خیال۔ عقیدہ دین عبادات اور اجتماع کی آزادی شامل ہوگی۔ جس میں اقلیتوں پسماندہ اور پست طبقوں کے جائز مفادات کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائے گا۔ جس میں عدلیہ کی آزادی پوری طرح محفوظ ہوگی۔ جس میں وفاق کے علاقوں کی سالمیت۔ اس کی آزادی اور زمین سمندر اور فضا پر اس کے حقوق مقتدر کے بشمول اس کے جملہ حقوق کی حفاظت کی جائے گی۔ تاکہ اہل پاکستان فلاح و بہبود حاصل کرسکیں اور اقوام عالم کی صف میں اپنا جائز اور ممتاز مقام حاصل کرسکیں اور بین الاقوامی امن اور بنی نوع انسان کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا بھرپور حصّہ ادا کرسکیں۔‘‘

سپریم کورٹ ہی جائزہ لے سکتی ہے کہ یہ ساری تمنّائیں اور آرزوئیں کیسے تکمیل پاسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ کسی عہدے یا ادارے سے اس وقت پاکستان کے عوام کو کوئی توقع نہیں ہے۔

تازہ ترین