• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اس وقت سیاسی اعتبار سے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے،جس سے ملک میں معاشی بحران روز بروزبڑھ رہا ہے،پاکستان کو اس خطرناک معاشی صورت حال سے دوچار کرنے میں جو کردار پی ٹی آئی کی حکومت اور سابق وزیر اعظم عمران نے ادا کیا وہ کسی کی نظروں سے اوجھل نہیں ، عمران خان جمہوری انداز سے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد ملک کو بحرانی کیفیت سے دوچار کر رہے ہیں، لانگ مارچ کے دوران وزیر آباد میں ان پر ہونے والا حملہ افسوس ناک ہے،مگر یہ بات بھی طے ہے کہ انکا مارچ ناکام ہوچکا تھا جس سے نکلنے کے لئے انہیں اس قسم کےراستے کی ضرورت تھی، یہ صورت حال اس صوبے میں پیش آئی جہاں ان کی اپنی حکومت ہے،یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے جس کی غیر جانب دارانہ انکوائری کی جانی چاہئے۔ اس واقعے کے بعد انہوں نے کہا کہ’’مجھے ایجنسیوں نے حملے کی اطلاع دے دی تھی، ان سے میرے رابطے ہیں ‘‘اس بیان کا مقصد اہم اداروں میں پھوٹ ڈالنا ہے ،دوسری جانب ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس واقعے پر سخت ردعمل دیا اور حکومت سے اس کی انکوائری کرانے کا مطالبہ کیا جس پر حکومت نے سپریم کورٹ سے کمیشن کی تشکیل کیلئے رابطہ کیا ، اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان پر ہونے والے حملے کی انکوائری کی جائے اور قوم کو اصل حقائق سے آگاہ کیا جائے، پنجاب میں عمران خان کی حکومت ہونےکے باوجو د سیکورٹی اداروں نے عمران خان کو کسی نزدیکی اسپتال کے بجائےشوکت خانم اسپتال کیوں جانے دیا، یہ بات بھی طے ہے کہ عمران خان نے پچھلے آٹھ ماہ کے دوران جو سیاست کی وہ ملک کے مفاد میں نہیں۔ دفاعی اداروں، پارلیمنٹ، الیکشن کمیشن اور اعلیٰ عدالتوں کی جس طرح انہوں نے بے توقیری کی اس نے ملک کو غیر مستحکم کیا، انہوں نے ملک میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا بھی احساس نہ کیا، قوم کو بے وقوف بنانےکیلئے فون کال پر فنڈ اکٹھا کیا مگرکیا اسے متاثرین تک پہنچایا؟

ایک ایسے وقت میں جب ملک معاشی طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے انہوں نے سیاسی محاذ آرائی میں کمی کرنے کے بجائے اس کی شدت میں اضافہ کیا، اداروں پر سابق وزیر اعظم عمران خان کی مسلسل تنقید کا مقصد پاکستان کو کم زور کرنا ہے؟ پاکستان کی سیاست میں نفرت و بدتمیزی کا جو کلچر عمران خان نے متعارف کرایا، وہ نئی نسل کو سیاسی طور پر تباہ کرنے کے مترادف ہے۔

انہوں نے ملک کے اہم ترین عہدے کو متنازع بنایا، اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں ملک کو جس معاشی تباہی پر پہنچایا اس کا سب سے زیادہ نقصان موجودہ پی ڈی ایم کی حکومت کو پہنچ رہا ہے جس نے ملک کو معاشی بحران سےنکالنے کیلئے اپنی سیاسی ساکھ کو دائو پر لگادیا ، نئے وزیر خزانہ اسحق ڈار کے آنے کے بعد امید پیدا ہوئی ہے کہ وہ ملک کو معاشی طور پر پہنچنے والے نقصان سے نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ عمران خان حکومت سے محرومی کے بعد جس طرح کھل کر اداروںپر نکتہ چینی کررہے ہیں ان کے خلاف حکومتی سطح پر ایکشن نہیں لیا گیا تو مستقبل میں کسی بھی ادارے کی اہمیت برقرار نہیں رہ سکے گی ،جس سے ملک افراء تفری کا شکار ہوجائے گا۔حکومت ڈالرز کے ساتھ اشیاءخورو نوش میں بھی عوام کو ریلیف دے ،عمران خان نے اپنے دور حکومت میں عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کیا ،کسی بھی ملک کے ساتھ ان کے دور میں ہمارے تعلقات بہتر نہیں رہے، سی پیک منصوبے کو جس قدر نقصان ان کے دور حکومت میں پہنچا وہ سب کے سامنے ہے، وہ پاکستان کو تباہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ قوم کو ان کے منصوبے سے آگاہ کیا جائے۔خود عمران خان بھی حالات کا ادراک کرتے ہوئے ضد سے باز آئیں ،دھرنے اور لانگ مارچ کی دھمکیاں دینا چھوڑ دیں، ان کی حریف سیاسی جماعتیں ملک کے مفاد میں خاموش ہیں وہ اسے کسی کی کمزوری ہرگز نہ سمجھیں۔ عمران خان کا یہ کہنا کہ وہ بے اختیار وزیر اعظم تھے ان کے ماضی کے بیانات سے متصادم ہے، وہ بطور وزیر اعظم کئی بار یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ وہ خوش نصیب ہیں کہ حکومت اورافواج پاکستان ایک پیج پر ہیں،ان کی پوری سیاست سہاروں کی مدد سے چلی ،حکومت میں آنے اور حکومت بنانے تک وہ بغیرکسی سہارے کےآگے نہ بڑھ سکے ،وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں واپس جاکر جمہوری عمل میں حصہ لیں اور سیاست پر عبور حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

مسلسل سیاسی اور اقتصادی بحرانوں کے شکار پاکستانی عوام مضطرب ہیں اور موجودہ صورتحال میں بہتری کے شدت سے خواہاں ہیں، آج کے پاکستان میں عام آدمی کی زندگی جہاں مہنگائی، بےروزگاری اور اقتصادی حالات نے مشکل تر بنا دی ہے، وہیں عوامی سطح پر مخالفت سے بھرپور سیاسی دھڑے بندیوں نے بھی بہت معاشرتی بگاڑ پیدا کیا ہے، عام شہریوں کی گزر بسر مشکل ہو چکی ہے۔ سیاسی استحکام ہی بہتر معیشت کا ضامن ہو سکتا ہے‘معیشت اور سیاست ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ جب تک جمہوریت اور سیاست میں استحکام نہیں آئے گا، معیشت کی حالت نازک ہی رہے گی۔سابق وزیر اعظم عمران خان کو اب اپنا سیاسی طرز عمل بدلنا ہوگا، الزام تراشی کی سیاست ترک کر کے عوامی مسائل کے حل کی سیاست کرنا ہوگی ورنہ ان کی جماعت کو ناقابلِ تلافی نقصان ہو سکتا ہے ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین