ڈاکٹر نوشین خالد
علامہ اقبال ؒ کے کلام اور افکار میں لمحہ موجود اور آنے والے تمام زمانوں کے مسائل کا حل موجود ہے۔ انہوں نے حیات و کائنات کے بے شمار موضوعات پر غورو فکر کیا۔ پیغام اقبالؒ آفاقی ہے اس میں وسعت اور ہمہ گیری ہے ۔ عصر حاضر ایک تہذیبی بحران میں مبتلا ہے۔ آزمائش کی اس گھڑی میں مسلم دانشوروں کی کڑی آزمائش ہو رہی ہے۔ تہذیبوں کے تصادم کی اس فضا میں مغربی تہذیب و تمدن پر اقبال ؒ کی تنقیدی نظر سے ہم استفادہ کر سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں فکر اقبال کا مطالعہ ایک ایسی دانش کے طور پر کیا جا رہا ہے جس نے بر صغیر کے مسلمانوں کو نظریاتی اور سیاسی قوت فراہم کی جس کی بنا پر پاکستان وجود میں آیا جو اسلام میں روشن خیالی کا استعارہ ہے اور مشرق اور مغرب میں رابطے کی اساس فراہم کرتا ہے۔
اقبال ؒ کا کلام اور پیغام اردو کے علاوہ فارسی زبان میں ہے ۔ یہ اسی کی برکت ہے کہ معاصرِ ایران کے مفکر انقلاب ڈاکٹر علی شریعتی حضرت علامہ اقبال ؒ کے ہی خوشہ چین ہیں ۔ماداقبال (ہم اور اقبال) نامی کتاب انکی سپاس گزار ہی نہیں انقلاب آفرینی کا منبع ہے۔ نو آزاد روسی ریاستوں میں بھی آج پیغام ِاقبال گونج رہا ہے۔
عالم عرب میں آپ کو اقبال العرب کہا جاتا ہے ۔ مولانا سید ابو الحسن ندوی کی عربی کتاب ردائع اقبال ؒ (نقوش اقبال ) کے تعارف کے بعد عالم عرب کے بیس ممالک کے بیس کروڑ مسلمان اقبال شناس ہوئے۔ ڈاکٹر عبدالوہاب عزام جو پاکستان میں مصری سفیر رہے ہیں ، محب اقبال تھے۔ انہوں نے کلام اقبال کو منظوم عربی میں پیش کیا۔
’’عجم کی ژرف نگاہی ، عرب کی دانائی ‘‘
عالم اسلام کو یہ خوش بختی حاصل ہوئی کہ گزشتہ چودہ سو برس میں حضور ؐ سرکار دو عالم کے دو علماء دین و فقر ایسے ہیں جنہوں نے دین کے ابلاغ کو عالمی اور انسانی معیار کی پکار کہا۔ ان میں سے ایک مولا نا جلال الدین رومی تھے جنہوں نے سات صدیاں پہلے مغربی تہذیب کے مادی فکر اور فلسفہ کو الہیات کی زبان دی ۔ دوسرے ٹھیک سات صدیوں بعد اقبال ؒ شاعر مشرق ہوئے ۔ اقبال ؒ مشرقی ومغرب ہی کیا پوری انسانیت کے لیے حیات نو کا پیغام دیتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں مغرب نے انسانیت کو جو دیا ہے اس میں ایٹمی موت کا خوف ، معاشی موت کا ڈر، ابلیسی ہتھکنڈہ اور مایوسی پھیلانا ہے۔ اسکی عملی صورت ایٹمی اسلحہ ، میزائل کے انبار ، ورلڈ بینک اور عالمی مالیاتی ادارے کے معاشی جال کے بعد سموئیل ہٹنگٹن کی کتاب تہذیبوں کا ٹکرائو اور برزشکی کی کتاب شطرنج کی بساط عظیم، انسانیت کو جیتے جی مارنے کا فکری ہتھکنڈہ ہے ۔ انسان کی بساط شطرنج نہیں حقیقتاً علم و فن ہے۔
علامہ اقبال ؒ بنیادی طور پر ایک جد ت پسند مفکر ہیں ۔ ان کی جدت پسندی کا ایک زاویہ بھی ہے کہ ان کے ہاں جس قدر سیاسی شعور پایا جاتا ہے اُردُو کے کسی اور شاعر کے ہاں نہیں پایا جاتا۔ وہ اپنی شاعری ، خطابت اور دیگر تحریروں میں اپنے دور کے سائنسی نظریات سے گہری واقفیت کا اظہار کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیت نئے جہاں کی تشکیل افکار تازہ کے بغیر ممکن نہیں ۔ وہ تقلید کو ذہنی غلامی کی ایک شکل قرار دیتے ہیں۔ وہ سائنس اور باقی تمام علمی شعبوں میں عقلی نقطہ ہائے نظر کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک عقل کی افادیت عالم مظاہر کو سمجھنے اور کار دنیا میں مسلمہ ہے۔
علامہ اقبال نے قوم کے زوال کا سبب دین سے دوری کو قرار دیا ہے ۔ قومیں دین سے بنتی ہیں نہ کہ سر زمین سے۔ اسلام اس جہاں تاب قومیت کا علمدار ہے ۔ وہ فرماتے ہیں؛
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِآدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی
ہو صداقت کیلئے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے
پھونک ڈالے یہ زمین وآسماں مستعار
اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے
اقبال ؒ فرماتے ہیں قومیں شاعروں کے دلوں میں پیدا ہوتی ہیں اور سیاستدانوں کے ہاتھوں زندہ رہتی ہیں یا مرجاتی ہیں۔ابلیس کی مجلس شوری میں ابلیس اور اسکے مشیروں کی گفتگو میں سیاسی نظام کو بے نقاب کیا گیا ہے ۔ جس میں مغربی جمہوریت کے جھوٹ کا لبادہ چاک کیاگیا ہے ۔ جس میں اسے حقوق آزادی اظہار اور عوام کی حکمرانی کا علمدار بتایا گیا ہے۔ گمراہی کا جو پرچم ابلیس نے اٹھا رکھا ہے اقبال کے نزدیک اب اسکے پرچم بردار ہمارے سیاسی نظام سے جڑے لوگ ہیں ۔ اقبالؒ ابلیس کی عضداشت نامی نظم میں فرماتے ہیں ۔
’’جمہور کے ابلیس ہیں ارباب ِ سیاست ‘‘
’’باقی نہیں اب میری ضرورت تہہ افلاک‘‘
ضرورت اس امر کی ہے کہ عصر حاضر کے مسائل کا حل فکر اقبالؒ میں تلاش کیا جائے ۔ اقبال نے مشرق و مغرب کے افکار کو کھنگالا مگر اسلامی تعلیمات کو ہر حال میں مد نظر رکھا۔ اقبالؒ کا نظریہ اخلاق بھی انہی بنیادوں پر قائم ہے۔ علامہ اقبال نے معاشرتی زندگی میں توازن پیدا کرنے کے لیے معیاری علوم کی اہمیت اور معاشرتی علوم کا احترام مد نظر رکھتے ہوئے انسان کو خود اس قابل بنایا کہ وہ اخلاق کو قانون کی حیثیت دینے لگا ۔ پھر خود شناسی سے خدا شناسی کا سفر بڑے سلیقے سے طے کرنے کے گر سکھائے ۔
علامہ اقبالؒ اجتہاد پر زور دیتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ اسلامی تعلیمات کے کئی پہلو ابھی تک نمایاں نہیں ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مزید غور و فکر کی مدد سے ان بنیادی حکمتوں کو واضح تر کیا جائے اور یوں فلاحی انسانی معاشرے کے قیام کی راہیں ہموار کی جائیں۔ اس سلسلے میں اسلامی تعلیمات انقلاب آفرین ثابت ہو سکتی ہیں ۔ جن کو عملاًنافذ کرنے سے ان تمام مسائل اور مشکلات سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ جس میں عہد حاضر کا انسان جکڑا ہوا ہے۔