ڈاکٹر اعجاز الحق
تصورِ خودی اقبال کے فکر و فلسفے کا محور ہے۔ اقبال نے حیات و کائنات کے بیشتر مسائل و مباحث کو اسی تصور کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کی ہے ۔انسانی خودی سے اقبال کی مراد انسان کے وجود کا اثبات ، اس کے وجود کا جوہر ، اس کی ہستی کا مرکز ،اس کی شخصیت کی بنیادی شناخت، اس کی ذات کی اصل اور اس کے شعور کا محورہے ۔اسے ہم خود شناسی ، خود گیری اور خودداری سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔ اقبال نے اپنے کلام ِ نظم و نثر میں بہت شرح و بسط سے اس تصور کی مابعدالطبیعیاتی ، وجودی ، اخلاقی اور جمالیاتی تعبیرات پیش کی ہیں۔ اقبال کے نزدیک حیات خودی ہے اور خودی حیات کیوں کہ جو شے خودی نہیں اسے حیات سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔فرد کی حیات بھی خودی ہی ہے اور اجتماع یا ملت کی حیات بھی خودی ہے۔ خودی اقبال کے نزدیک رازِدرون ِ حیات ہے ۔انسان کی بقا خودی کی بقا اور پرورش میں مضمر ہے۔
اقبال کے نزدیک زندگی کا وجود خودی کے آثار میں سے ہے اور جو کچھ ہم دیکھتے ہیں خودی ہی کے اسرار کا اظہار ہے۔ اقبال کے نزدیک چونکہ اس جہان کی زندگی کا دارومدار خودی کی قوت پر ہے ،اس لیے ہر وجود کی زندگی اس کی خودی کے استحکام کے مطابق ہے۔
چوں حیات عالم از زور خودی است
پس بقدر استواری زندگی است
اقبال کے خیال میں خودی شعور نفس کا ایک ایسا روشن نقطہ ہے جس سے زندگی روشنی اور تابناکی حاصل کرتی ہے۔
نقطہ نورے کہ نام او خودی است
زیر خاک ما شرار زندگی است
نظم ’’ساقی نامہ‘‘ میں اقبال نے خودی کو بے حد دلکش پیرائے میں یوں بیان کیا ہے۔
یہ موج نفس کیا ہے؟ تلوار ہے!
خودی کیا ہے؟ تلوار کی دھار ہے!
خودی کیا ہے؟ رازِ درون حیات
خودی کیا ہے؟ بیداری کائنات
چناں چہ کائنات کے ذرے ذرے میں جو حیات پوشیدہ ہے وہ خودی ہی ہے جو انائے کبیر کا مظہر ہے۔ کائنات کا جوہر خودی ہے جو درجہ بدرجہ ارتقا پذیر ہو تے ہوئے انسانی خودی میں ایک بہت ترقی یافتہ شکل میں موجود ہے ۔انسانی خودی کے بھی بہت سے درجات ہیں اور اس کا بلند ترین درجہ وہ ہے جہاںوہ انائے کبیر سے قریب ترہو جاتی ہے۔ اقبال انسانی خودی کے انائے کبیر سے قربت کے تو قائل ہیں مگر مکمل اتصال کے نہیں ۔اقبال کے نزدیک خودی کی حیات کی حقیقت روحانی ہی ہے مگر یہ مادی پہلو بھی رکھتی ہے ۔ ان کے نزدیک خودی روحانی و مادی دونوں مظاہر پہ محیط ہے ۔ خودی ایک وجودیاتی حقیقت ہے ۔ خودی ثبات بھی ہے اور ایک تغیر بلا تواتر بھی۔
یہ کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت ہے ۔ اسی کی وجہ سے حیات کے بظاہر منقسم آنات ایک بالائے ابدی آن میں سمٹ آتے ہیں ۔ یہ خودایک بہائو (Flux) ہے مگر اس بہائو کو محسوس کرنے والا ایک متعین فریم آف ریفرنس بھی ہے۔ خودی اپنی جھلک انسان کی نفسی کیفیات اور اس کے ارادی رویوں میں کرتی ہے ۔ ہمارا ہر ارادی عمل ہماری خودی کے کسی نہ کسی درجے کو ظاہر کرتا ہے ۔ ہمارے بلند اعمال ہماری خودی کے درجات ِ کمال ہیں۔خودی کو ہم دیگر مقولات کے استنباط سے حاصل نہیں کر سکتے بلکہ خودی کے انکشاف کا ذریعہ وجدان ہے جو ایک براہ راست ذریعہ علم ہے۔
اسی لیے سب سے پہلے ہم جس ایقان کے تجربے سے گزرتے ہیں وہ خدا کا علم ہے یا خودی کا علم۔ اسی وجدان سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ خودی ایک حقیقی ، بامقصد ، ہادیانہ ، آزاد اور غیر فانی جوہر ہے۔ وجدان ہی ہمیں آگاہ کرتا ہے کہ خودی ہی وہ سب سے حقیقی شے ہے جس سے ہم جاننے کا آغاز کرتے ہیں اور اسی کے ذریعے ہم خدا شناسی کے مراحل طے کرتے ہیں ۔ باطن کی اتھاہ گہرائی میں پہنچ کر ہم پر جس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے وہ خودی ہی ہے ۔ ہماری مہیجات ، ہمارے ارادوں ، ہماری تمنائوں ،ہمارے جذبوں ،ہماری امنگوں کے پس پردہ جو سرچشمہ ہے وہ خودی ہی ہے ۔ خودی ہمارا باطن بھی ہے اور ظاہر بھی۔
موت کا تجربہ بھی ایک بالکل انفرادی تجربہ ہے اور انسان کو خود ہی انتہائی ذاتی اور باطنی طور پر اس تجربے سے گزرنا پڑتا ہے اور کوئی دوسرا اس میں ہر گز شریک نہیں ہو سکتا ۔ ہمارا شعوری تجربہ ایک وحدت ہے اور ہمارے افعال و اعمال ، ہمارے افکار و احساسات اسی بسیط جوہر کے صفات و احوال ہیںاور زمان کا بہائو بھی اس کو متاثر نہیں کرتا۔ ہمارے کوائف و احوال بدلتے رہتے ہیں مگر یہ جوہر غیر متاثر رہتا ہے ۔ کثرت اس وحدت پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ اقبال قرآن مجید کے ان الفاظ کا حوالہ دیتے ہیںکہ روح امر ربی ہے اور ہمیں امر اور خلق کے درمیان فرق سمجھنا ہو گا ۔ اس لیے خودی کوئی شے نہیں بلکہ عمل ہے۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان تو مختلف اعمال سر انجام دیتا ہے اور ان میں تو کثرت ہونا لازم ہے پھر کوئی سی شے ہے جو ااعمال کی ان کثرت میں وحدت پیدا کرکے ان کو خودی کی شکل دیتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ امرہدایت اور مقصد کی وحدت ہے ۔ لہذا یہ تجربات و حوادث کا کوئی ریاضیاتی یا میکانکی قوانین کے تابع ایک مجموعہ نہیں اور نہ ہی اس کو تجربات کاایک زمانی سیل ہی تصور کیا جا سکتا ہے ۔ اقبال کے مطابق خودی ایک ایسا عامل ہے جو زمان میں خود کو منظم کرتا ہے اور خود اپنے تجربے ہی سے اپنی تعمیر کرتا ہے۔ اقبال کے نزدیک خودی ایک آزاد شے ہے جو اپنے خارج میں موجود علت و معلول کے جہاں کی پابند نہیں بلکہ اس کی آزادی اس کے باطن میں پوشیدہ ہے ۔
یعنی اسے میکانکی جبریت(Mechanistic Determinism) کے تابع نہیں کیا سکتا ۔اقبال اس تصور کہ خودی کی فعلیت خیالات و تصورات کا ایک سلسلہ ہے جس کو احساسات کی وحدت کی صورت تحویل کیا جا سکتا ہے کومادیت اور میکانکی جبریت ہی کی ایک شکل سمجھتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک کائنات خودیوں اور تجلیوں کا ایک نظام ہے اور انسانی خودی اس نظام میں وحدت وجدانی کا روشن ستارہ۔ اقبال کے نزدیک خودی مطلق انفرادی خودیوں کے لیے ایک ماورائی منزل اور ان میں آرزووں اور ارادوں کی فصل بونے والی یک قوت ِ محرکہ ہے۔
نقطہ ء نورے کہ نام او خودی است
زیرِ خاک ِما شرار زندگی است
اقبال خودی کو مسلسل جہد سے تعبیر کرتے ہیں ۔یعنی خودی کا استحکام مسلسل جدو جہد کے ذریعے اپنے آپ کو منوانے ہی میں مضمر ہے
اقبال کے تصور خودی کی رو سے خودی ایک یکتا ، بے نظیر اور بے مثل مظہر ہے ۔اقبال چاہتے ہیں کہ انسان اپنی انفرادی شناخت کا ادراک کرے اور اپنے عمل کے ذریعے اسے ظاہر کرے۔
اقبال کے فلسفہ خودی پہ نطشے کے اثرات کا جائزہ لیا جاتا ہے مگر اقبال اور نطشے کے تصوراتِ خودی کے درمیان بہت کم مماثلت پائی جاتی ہے ۔ البتہ اقبال اور فختے کے درمیان اس حوالے سے کسی قدر مماثلت پائی جاتی ہے ۔
اقبال اور فختے کے تصور ِ خودی میں یہ بنیادی فرق ہے کہ فختے خودی کو ایمان سے آراستہ نہیں کرتا جب کہ اقبال کی خودی ایمان و ایقان سے مملو ہے۔ خود شناسی انھیں خدا شناسی کی منازل تک لے جاتی ہے جب کہ فختے کے ہاں ایسا کوئی تصور نہیں ۔ اس کا فلسفہ شخصی خدا کے انکار ہی پہ منتج ہوتا ہے یعنی ایسے خدا کے انکار پہ جو انسانی خودی سے گہرا فکری و عملی ربط رکھتا ہے ، اس کی دعائوں کو سنتا ہے اور اس کی حاجات کا مداوا کرتا ہے۔
کانٹ کی طرح اقبال کو عقل محض سے مایوس ہو کر اخلاق کے ذریعے ایمان کے اثبات کی ضرورت لاحق نہیں ہوئی کیوں کہ وہ خودی کے ذریعے اس کا اثبات کرتے ہیں ۔ان کا فلسفہ خودی سے شروع ہوتا ہے اور اس کی مسلسل جدوجہد کی تاویل اس کے سوائے نہیں ہو سکتی کہ انسان کی خودی کی مسلسل جدوجہد ایمان پہ منتج ہو گی۔ کیوں کہ انسانی فطرت ہے کہ جب تک ہمیں یہ یقین نہ ہو کہ جدوجہد کی بدولت ہمیں ہماری منزل مل جائے گی ، اس وقت تک ہم پیہم کوشش کر ہی نہیں سکتے۔ـ
اقبال کا تصور ِ توحید اور تصورِ خودی دراصل ایک ہی حقیقت کا بیان ہے۔ ان کے نزدیک خودی اسی صورت میں مستحکم ہو سکتی ہے جب انسان کا عقیدہ توحید مضبوط ہو۔ جتنا عقیدہ توحید مضبوط ہو گا اتنا ہی خودی بھی مضبوط و توانا ہو گی ۔
خودی کا سرنہاں لاالہ الااللہ
خودی ہے تیغ، فساں لا الہ الااللہ