ڈاکٹر محمد خان اشرف
علامہ اقبال پاکستانی قوم کے لیے ایک روشن ستارہ ہیں۔ وہ نہ صرف نشانِ راہ اور عزمِ سفر دینے والے تھے بلکہ آزادی کے سفر میں بانگِ درا بھی تھے اور اب انھیں نشان و مقامِ منزل دکھانے والا بھی تصور کیا جاتا ہے ۔ مفکرِ پاکستان نے سب سے پہلے علیحدہ وطن اور جداگانہ قومیت کا راستہ دکھایااور برصغیر میں بسنے والے مسلمانوں کو آزادی اور آزاد وطن حاصل کرنے کا پیغام دیا، اپنی شاعری سے ان کے عزم و حوصلہ کو بلند کیا جس کے نتیجے میں برصغیر کے مسلمانوں نے قائد اعظم کی قیادت میں پاکستان کے خواب کو ایک حقیقی تعبیر عطا کی اور علیحدہ وطن حاصل کیا ۔ گو اقبال اپنے خواب کی حقیقی شکل نہ دیکھ سکے کہ ان کی وفات ۱۹۳۸ء میں ہو گئی تھی لیکن ان کی شاعری سب کے لیے حوصلے اور عزم کا سہارا رہی۔
آزاد پاکستان کو وجود میں آئے ہوئے ۷۵ سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ہم آج بھی اقبا ل کے پیغام میں اپنے لیے راہنمائی کی سمت تلاش کرتے ہیں ۔ اس عرصہ میں بہت سا پانی پلوں سے گزرچکاہے ،دنیا ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے ۔ لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم دیکھیں آج کی دنیا اقبال کے عہد سے کس طرح اور کتنی مختلف ہے۔
انسانی وجود کے سفر کے جس مقام پر ہم آج کھڑے ہیں اور جس سمت ہم اور تمام دنیا جا رہی ہے اس میں اقبال کے پیغام اور فلسفے کی کیا اہمیت اور معنویت ہے ، اس سلسلے میں مجموعی طور پر علمی ، تہذیبی اور فکری تناظر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہےاور اس تناظر اور جہت نمائی میں بدلتے ہوئے انسانی فکری اور تہذیبی عوامل کو سامنے رکھ کر اپنے مقام اور سمت کا تعین ہمیں اقبال کی بہتر تفہیم میں مدد دے گا۔ اقبال نے خود کہا تھا :
کھول کر آنکھیں مرے آئنۂ گفتار میں
آنیوالے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ پھر
آزمودہ فتنہ ہے اک اور بھی گردوں کے پاس
سامنے تقدیر کے رسوائی تدبیر دیکھ (خضرِ راہ)
اقبال کا عہد ہندوستان میں مسلمانوں کی غلامی اور زوال کا عہد تھا ۔ اقبال انیسویں صدی کے اختتامی عشروں سے بیسویں صدی کے ابتدائی ادوار میں (1876-1938)زندہ رہے ۔ یہ عہد مسلمانوں کی ابتلا اور مصیبت کا عہد تھا ۔ ہندوستان میں مغلیہ سلطنت ۱۸۵۷ء میں ختم ہو چکی تھی اور تاجِ برطانیہ کی حکومت مسلط تھی ، وہ معاشی ، سیاسی ، معاشرتی اور تعلیمی ، ہرلحاظ سے پس ماندہ اور زوال پذیر تھے لیکن یہ صرف ہندوستان ہی میں نہ تھا ۔ دنیا بھر میں مسلمان پس ماندہ اور زوال کا شکار تھے اور ترکی کی حکومت کو بھی یورپ کے مردِ بیمار کے نام سے یاد کیا جا رہاتھا۔
لیکن دوسری طرف یورپ اور مغربی ممالک تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کے ایک نئے عروج کی طرف بڑھ رہے تھے ۔ علم او رہنر میں ان کی ترقی نے ان کو سامراجی توسیع کے ایک نئے عروج کی طرف گامزن کر دیا تھا ۔ اس عہد میں مغرب سائنس او رٹیکنالوجی میں نئی فتوحات حاصل کر رہا تھا ۔ ذرائع رسل و حمل میں ریل، دخانی جہاز، ہوائی جہاز او ردوسرے ذرائع نے سفر کو آسان بنا دیا تھا اور دنیا کی حدود سکڑنے لگی تھیں۔
ادویات میں نئی دریافتوں نے پرانی لاعلاج بیماریوں اور وبائوں پر قابو پانے کی امید پیدا کر دی تھی۔ زراعت او رصنعت کی ترقی نے فارغ البالی اور بہتری کی امیدیں پیدا کر دی تھیں ۔ غرض مجموعی طور پر انسان علم و ہنر میں نئی دنیائوں کی طرف گامزن تھا ۔ اس لیے انسانی فکر کی تاریخ میں اس کو جدید یت کا عہد کہا گیا ، گو مسلمان ہر جگہ پس ماندہ اور زوال آمادہ تھا۔
اقبال نے اس دور کا گہرا تجزیہ کیا ، اس نے مسلمانوں کو دوبارہ عروج اور ہنرمندی کا درس دیا ، اس نے ’’خودی ‘‘ او ر’’فقر‘‘ کا نعرہ لگایا اور کہا:
مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے عطا ہونیوالا ہے
شکوہِ ترکمانی ، ذہنِ ہندی ، نطقِ اعرابی
اور جب سلطنتِ عثمانیہ یعنی ترکی کو شکست سے دوچا ر ہونا پڑا تو اس نے کہا:
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
جہاں بانی سے ہے دشوار تر کام جہاں بینی
جگر خوں ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سےہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اور اس موقع پر انھوں نے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا!
خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تو زباں تو ہے
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گماں تو ہے
پرے ہےچرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گردِ راہ ہوں وہ کارواں تو ہے
اقبال کی پیشین گوئی درست ثابت ہوئی اور بیسیوں صدی کے نصف تک ہندوستان میں مسلمانوں نے اپنی آزاد سلطنت حاصل کر لی اور اس طرح یکے بعد دیگرے تمام مسلمان ممالک نے مغربی استعمار سے آزادی حاصل کر لی اور زندگی اور ترقی کی دوڑ میں ان کے مغرب کے شانہ بہ شانہ آگے بڑھنے کی امید پیدا ہو گئی اور ساتھ یہ بھی کہ جس ملتِ اسلامیہ کا خواب اقبال نے دیکھا تھا ، وہ بھی وجود میں آسکے گی۔
لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا ، اس سلسلے میں تمام تر کاوشیں منزل سے دور رہیں ، صرف اسلامی ممالک کی تنظیم کی ایک ڈھیلی ڈھالی صورت وجود میں آئی جو کوئی خاص طاقت اور اثر نہیں رکھتی ۔ اس کے ساتھ ہی دنیا پر واضح ہو گیا کہ ’’جدیدیت ‘‘ کے دور میں فطرت پر انسان کے غلبے کے جو خواب دیکھے گئے تھے ان کی تعبیر نہایت تلخ نکلی ۔ انسان نے علم اور ہنر ، سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت فطرت کو تسخیر کرنا شروع کیا تھا لیکن جلد ہی انسان پر واضح ہو گیا کہ اس کی ایک حد ہے اور یہ کہ انسان خود بھی اس فطرت کا حصہ ہے۔
فطرت کی تسخیر ، ماحول پر غلبہ پانا دراصل اپنے ماحول ، دنیا میں مسکن کو برباد کرنے کے مترادف ہے ۔ اور اگر ماحول اور مسکن برباد ہو جاتا ہے تو انسان کا اپنا مستقبل اور وجود خطرے میں ہو گا۔ لہٰذا جلد ہی پیش بیں انسانوں نے اس سے خبردار کرنا شروع کر دیا۔ ادھر ماحول نے اپنی بربادی کا اثر دکھانا شروع کر دیا ، پاکستان میں موجود سیلاب اسی ماحولیاتی عدم توازن کا نتیجہ ہے اور اگریہ سلسلہ جاری رہا تو دنیا میں دیگر ممالک کو بھی اس کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اقبال نے اپنی شاعری میں مغرب کی تہذیب کے زوال کی پیشین گوئی ضرور کی تھی انھوں نے کہا تھا
دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہو گا
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کریگی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
یہ پیشین گوئی اخلاقی او رتہذیبی بنیاد پر تھی لیکن اسے سائنس اور ٹیکنالوجی تک بھی پھیلایا جا سکتا ہے۔
دانشورانہ اور فکری تاریخ میں انیسویں صدی کے نصف آخر کو پسِ جدیدیت کا نام دیا گیا ہے ۔ جدیدیت دراصل میکانکی ترقی کا عہد تھا ۔ پسِ جدیدیت میں الیکٹرانکس نے عروج حاصل کیا ، کمپیوٹر ، ٹیلی ویژن کی ایجاد ، آئی ۔ٹی کی ترقی اور نینو ٹیکنالوجی نے انسانی رسائی کی حدود کو لامتناہی کر دیا۔ انسان دوسرے ستاروں کی تسخیر کی طرف چل دیا۔ لیکن اس میں مغرب اور روس و چین کا حصہ زیادہ ہے، اسلامی دنیا کا اس میں حصہ بہت کم ہے، دراصل اس ٹیکنالوجی کے انقلاب نے دوسری بہت سی حدود کو بھی معدوم کر دیا ہے۔ جغرافیائی اور نظریاتی بنیادیں منہدم ہوتی جا رہی ہیں ، عالمگیریت ایک سیلاب کی طرح اخلاقی ، علاقائی ، تہذیبی ، تمدنی ، لسانی حدود و قیود کو بتدریج کمزور کرتی جا رہی ہے ، انسان اب دنیا بھر میں بطور انسان کے وجود اختیار کرتا جا رہاہے ، اس کے بغیر ماحولیاتی اور ٹیکنالوجی کے انقلاب کو اثرات کا مقابلہ نہ ہو سکے۔
اکیسویں صدی اس سے ایک قدم آگے بڑھ چکی ہے ، اس عہد میں کتاب اور لکھی ہوئی چیز کا کلچر ختم ہوتا جا رہاہے اور آئی ۔ٹی اور الیکٹرونک میڈیا نے ایک حاوی مقام حاصل کر لیا ہے ۔ اب تحریر کے بجائے تصویر کا غلبہ ہے ۔ کتاب اور تحریر کا عہد اس بات کا تقاضا کرتا تھا کہ سچائی اور سچ و صداقت ایک حقیقت ہے جو انسانی عمل کی بنیاد بنتی ہے اور انسانی تہذیب و تمدن ، آئین و قانون کی شرطِ اول ہے لیکن اب نئی ٹیکنالوجی نے اس بنیاد کو ہلا دیاہے۔ اب سچ اور صداقت کو فوٹو شاپ، ورکشاپ اور ملٹی میڈیا میں وضع کیا جارہاہے۔ سوشل میڈیا نے اس کی بنیاد ہلا دی ہے۔ اکیسویں صدی کے اس عہد کو انسانی فکر کی تاریخ میں پوسٹ ٹرتھ (Post Truth)یعنی پسِ صداقت کا عہد کہا گیا ہے ، جب من گھڑت بیانیے بنائے جاتے ہیں اور ان کو پھیلایا جاتا ہے اور ان کا اثر اس قدر ہے کہ سچائی کی بنیادیں ہل چکی ہیں۔ اقبال نے شاید اس عہد کا خواب نہ دیکھا تھا لیکن اس کے پیروکار اب اسی میں مبتلا ہیں۔
انیسویںصدی کا آخر اور بیسویں صدی کا نصف اول میکانکس کا دور تھا، اس عہد میں انسان کو یقین ہو چلا تھا کہ وہ فطرت کو تسخیر کر کے اور عناصر پر غلبہ حاصل کر کے ایک نئی دنیا پیدا کر سکے گا ۔ انسان نے ہمیشہ یوٹوپیا کے خواب دیکھے ہیں ، جہاں ہر طرف امن و امان ہو گا ، ہر چیز کی فراوانی ہو گی اور کوئی انسان دوسرے انسان اور کوئی قوم دوسری قوموں کا استحصال نہ کر سکے گی۔ یہی نقطۂ نظر لیگ آف نیشنز اور پھر اقوامِ متحدہ کے قیام میں مضمر تھا اور ان کا چارٹر اس کا اظہار تھا۔ اشتراکیت کا تصور اور فروغ بھی اسی خواہش کے باعث تھا ، اسی دور میں غلام اقوام ، سامراجی نظام سے آزاد ہو کر خود مختاری حاصل کرنے لگیں ۔ غرض جدیدیت نے انسانیت کو ایک نئے عہد اور نصب العین سے روشناس کرایا لیکن پھر ان تضادات نے ظاہر ہونا شروع کر دیا جس کے اندیشے کا اقبال نے اس طرح اظہار کیا تھا کہ :
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
پہلی جنگِ عظیم اور پھر دوسری جنگِ عظیم نے جدیدیت کے اس خواب کو چکنا چور کر دیا ۔ انسان کے ضمیر کا فاشسٹ رجحان اس کے جمہوریت کے خواب پر غالب آگیا اور یوں پس جدیدیت کا عہد شروع ہوا۔
اسی عرصے میں ذرائع علم و ابلاغ نے بھی ترقی کی ۔ علم ہمیشہ ہی سے انسان کے شعور و عرفان کا ذریعہ رہا ہے اور اس کا بنیادی ذریعہ کتاب اور تحریر تھا ۔ انسانوں کی کتب اور تحریر ہی علم ، عرفان اور صداقت کا ذریعہ تھیں۔ بیسویں صدی کے دوسرے دور میں علوم و فنون کے لیے دوسرے ذرائع کا استعمال شروع کر دیا۔ بیسویں صدی کا دوسرا حصہ جسے پس جدیدیت کا نام دیا گیا ، میکانکی سے بڑھ کر الیکٹرانکس کا دور بن گیا ۔ ایٹم کی شکست، ٹی۔ وی، کمپیوٹر ، موبائل ، نینو ٹیکنالوجی اورآئی۔ ٹی نے اطلاع عامہ اور ابلاغِ عامہ کے نئے ذرائع ہر انسان کی دسترس میں کر دیے۔
اکیسویں صدی اس سے بھی کئی قدم آگے بڑھ چکی ہے ۔ اس عہد میں کتاب کا کلچر ختم ہو رہاہے اور آئی ۔ ٹی اور الیکٹرانک میڈیا نے ایک حاوی مقام حاصل کر لیاہے ۔ اب تحریر کے بجائے تصویر کا غلبہ ہے۔ تحری کا عہد اور کتاب کا کلچر اس بات کا تقاضا کرتا ہے تھا کہ سچ او رصداقت ایک حقیقت ہے جو انسانی عمل کی بنیاد بنتی ہے اور انسانی تہذیب ، آئین اور قانون کی شرطِ اول ہے لیکن ایسے محسوس ہوتاہے کہ اب ٹیکنالوجی نے اس بنیاد کو ہلا دیاہے اور اب صداقت او رسچائی کو فوٹو شاپ، ملٹی میڈیا اور ورکشاپ میں وضع کیا جا رہاہے ، اسی وجہ سے اب اکیسویں صدی کو Post Truth یعنی ’’پسِ صداقت‘‘ یا ’’مابعد صداقت‘‘ کہا جا رہاہے ، اقبال نے سو سال پہلے کہہ دیا تھا:
ابھی تک آدمی صیدِ زبونِ شہریاری ہے
قیامت ہے کہ انساں ، نوعِ انساں کا شکاری ہے
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
وہ حکمت ناز تھا جس پرخردمندانِ مغرب کو
ہوس کے پنجۂ خونیں میں تیغِ کارزاری ہے
اقبال کا یہ پیغام آج سے سو برس پہلے درست تھا اور آج کے عہد میں جب کہ ہر شے بدل چکی ہے ، وہ اب بھی درست معلوم ہوتاہے ۔جدیدیت کےآغاز میں انسان برتر مادی قوت کا شکار تھا اور جسمانی طور پر غلام تھا ۔ اب پسِ صداقت عہد میں وہ ذہنی ، علمی اور ابلاغیاتی طور پر انسان کا ہدف ہے۔ اب وہ من گھڑت بیانیوں اور خود ساختہ معلومات اور کہانیوں کاایسا شکار ہے کہ حقیقت اور سچائی کی بنیادیں متزلزل معلوم ہوتی ہیں ۔ اور اس کا علاج صرف سچائی اور صداقت ہے جو اقبال کے اس شعر میں مضمر ہے :
سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا ، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
سو سال بعد بھی ان بدلے حالات میں اقبال کا یہ پیغام درست ہے اور اس پر عمل ہی میں نجات ہے ۔
(میجر(ر) ڈاکٹر محمد خان اشرف لاہور گیریزن یونیورسٹی میں پروفیسر شعبہ اردو ہیں)