• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہماری زیادہ تر سیاسی زندگی محاذ آرائی سے عبارت رہی، تاہم بالغ نظر اور معاملہ فہم رہنما بگڑے ہوئے حالات میں بات چیت اور مفاہمت کے دریچے کھولتے رہے ہیں۔ اُن میں سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کا مقام اِس لئے ممتاز دکھائی دیتا ہے کہ اُنہوں نے سیاسی اختلاف کے نہایت عمدہ آداب اختیار کئے، اپنے بدترین مخالفوں سے بھی ایک آبرومندانہ طرزِ عمل اختیار کیا اور وَسیع تر ملکی مفاد کی خاطر اُن سے تعاون کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی۔ اُنہیں پاکستان میں آئے ہوئے دو ماہ بھی نہیں گزرے تھے کہ بھارت نے سری نگر ایئرپورٹ پر قبضہ کر لیا اور جموں میں مسلمانوں کا بہیمانہ قتلِ عام شروع ہو گیا۔ قبائلی علاقوں اور پاکستان سے غیرمنظم گروہ اَپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کےلئے کشمیر جانے لگے اور پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ چھڑ گئی۔ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے جہادِ کشمیر کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ جہاد کا اعلان کرنے کی مجاز صرف ریاست ہے، کیونکہ اِس کے سوا طاقت کا استعمال اسلام کے اندر کسی طورپر جائز نہیں۔ مولانا کے اِس اصولی موقف پر ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ اُن کے خلاف یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ اُنہوں نے جہادِ کشمیر کو حرام قرار دَے دیا ہے جب کہ حقیقت یہ تھی کہ پاکستان کے وزیرِ خارجہ سر ظفر اللہ خان نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں جب یہ بیان دیا کہ پاکستان کی افواج جنگ میں شریک ہیں، تو مولانا مودودی نے غیرمبہم الفاظ میں یہ بیان دیا کہ اب اہلِ پاکستان جہاد میں حصّہ لے سکتے ہیں اور اَپنی جماعت کو حکم دیا کہ وہ اَپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کی مدد میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے۔ اُنہوں نے قرآنی تعلیمات کی روشنی میں 1947ء کے آخر میں جس رائے کا اظہار کیا تھا، وہی رائے پاکستان کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے 2021ء میں بآوازِ بلند بیان کی تھی، کیونکہ مسلح جتھہ بندی امن کے لئےخطرہ بنتی جا رہی تھی۔ اُس کے بعد مارچ 1953ء میں بڑا ہی سخت مرحلہ پیش آیا۔ پنجاب میں قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دَینے کی مجلسِ احرار کی سرپرستی میں عوامی تحریک زور پکڑتی گئی۔ اُس میں جماعتِ اسلامی نے حصّہ نہیں لیا اور جب حالات قابو سے باہر ہو گئے، تو سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے ’قادیانی مسئلہ‘ کے عنوان سے کتابچہ شائع کیا جس میں احتجاج کے اسباب کا احاطہ کرنے کے ساتھ ساتھ مسئلے کا پُرامن حل بھی تجویز کیا گیا تھا۔ فوجی قیادت نے اِس اقدام کو سراہنے کے بجائے فوجی عدالت کے ذریعے اُنہیں موت کی سزا سنا دی۔ اُس کی توثیق ضابطے کے مطابق کمانڈر اِن چیف جنرل ایوب خان نے کی۔ وہ جماعتِ اسلامی کو اَپنا حریف سمجھنے لگے تھے، کیونکہ مولانا سول اور ملٹری بیوروکریسی کی جمہوریت دشمن پالیسیوں پر تنقید کر رہے تھے۔ اِس کے علاوہ جب گورنرجنرل ملک غلام محمد نے پہلی دستورساز اسمبلی تحلیل کی، تو اُس کے خلاف منظم احتجاج جماعتِ اسلامی ہی نے کیا تھا اور دَستور ساز اسمبلی کے صدر مولوی تمیز الدین خان کو حکومت کے خلاف مقدمہ لڑنے میں پوری اعانت فراہم کی تھی۔ بدنصیبی سے 27؍اکتوبر 1958ء کو کمانڈر اِن چیف جنرل محمد ایوب خان نے صدر اسکندر مرزا کو معزول کر کے حکومت کا نظم و نسق خود سنبھال لیا۔ وہ چند ماہ بعد لاہور آئے اور مولانا مودودی سے ملاقات کے لئے آنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ شدید اختلاف کے باوجود مولانا نے پیغام بھیجا کہ آپ ہماری مملکت کے صدر ہیں، مَیں آپ سے ملنے آؤں گا، چنانچہ گورنر ہاؤس لاہور میں اُن سے ملاقات ہوئی جس میں کمانڈر اِن چیف صاحب نے اُنہیں سیاست کی غلاظت سے نکل جانے اور دُنیا بھر میں اسلام کی تبلیغ فرمانے کا نہایت مشفقانہ مشورہ دِیا۔ مولانا نے جواب میں کہا ’’جنرل صاحب! آپ درست ہی فرماتے ہیں کہ اِس وقت سیاست کو غلط کار اَور خوفِ خدا سے عاری لوگوں نے ایک گندا کھیل بنا دیا ہے، اِس لئے اجتماعی نظامِ زندگی کو اِس گندگی سے دور کرنا ہمارے لئے ایک دینی فریضہ ہے۔‘‘ اُنہوں نے بڑی شائستگی سے اپنا مدعا بیان کر دیا تھا۔ ایوب خان کی حکومت جماعتِ اسلامی کی طاقت میں ضعف پیدا کرنے کے لئےمختلف حربے استعمال کرتی رہی اور پھر وہ سخت مقام آیا جو اُس کی ذلت کا باعث بنا۔ سیاسی جماعتوں سے پابندی اٹھتے ہی جماعتِ اسلامی نے موچی دروازے کے باغ میں اجتماعِ عام کرنے کی اجازت چاہی۔ حکومت نے انکار کر دیا اور لاؤڈ اسپیکر پر بھی پابندی عائد کر دی۔ اُن دنوں نواب آف کالاباغ مغربی پاکستان کے گورنر تھے۔ اُن کی طرف سے بھاٹی گیٹ کی پتلی سی پٹی میں جلسہ کرنے کی اجازت دی گئی۔ جماعتِ اسلامی نے اُس پٹی میں خیموں کا ایک شہر آباد کر دیا۔ یہ اجتماع چونکہ کئی برس بعد ہو رہا تھا، اِس لئے اراکین اپنے کنبوں کے ساتھ شریک ہوئے۔ لاؤڈ اسپیکر کے بغیر سامعین تک تقریریں پہنچانے کے لئےمکبرین کا اہتمام کیا گیا۔ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی تقریر کے دوران گولی چلنے کی آواز سنائی دی۔ اُس وقت راقم الحروف اسٹیج کی پشت پر خواتین کے خیموں کے قریب کھڑا تھا۔ جماعتِ اسلامی کے کارکن اللہ بخش گولی کا نشانہ بنے۔ آواز آئی مولانا بیٹھ جائیے۔ اُنہوں نے جواب دیا اگر مَیں بھی بیٹھ گیا، تو کھڑا کون رہے گا؟ اجتماع کی کارروائی جاری رہی اور مولانا نے کامل اعتماد سے اپنی تقریر مکمل کی۔ ہماری تاریخ میں نظم و ضبط کا یہ انتہائی حیران کن اور اَعلیٰ ترین مظاہرہ تھا۔ اِس بہت بڑے سیاسی سانحے کے بعد حکومت نے جنوری 1964ء میں جماعتِ اسلامی پر پابندی لگا دی جسے چیف جسٹس اے آر کارنیلیس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے کالعدم قرار دَے دیا۔ اِس دوران اپوزیشن کی امیدوار محترمہ فاطمہ جناح صدارتی انتخاب ہار گئیں اور حزبِ اختلاف نے قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصّہ نہ لینے کا سوچا، مگر مولانا مودودی نے آئینی راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دِیا۔ اِس کے فوراً بعد 1965ء کی جنگ چھڑ گئی اور صدر اَیوب خان نے تمام سیاسی قائدین کو ملاقات کی دعوت دی۔ مولانا نے ایک لمحے کے توقف کے بغیر دعوت پر لبیک کہا۔ اُن کے ساتھ یادگار تصویریں کھنچوائیں۔ اِس طرح اپوزیشن اور حکومت شِیر و شکر ہو گئے اور قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی۔

تازہ ترین