• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی قوم میں نفرتوں کے بیج بونے والے ملک و قوم کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ اس وقت فہم و فراست سے کام لیا جائے اور تمام معاملات کو افہام و تفہم سے حل کیا جائے۔ وطنِ عزیز کے اندرونی حالات سے دشمن ممالک میں خوشی کے شادیانے تو بچ سکتے ہیں مگر کوئی ایک بھی محبِ وطن شخص اس سے خوش نہیں ہوسکتا۔حکومت اور اپوزیشن کو اس وقت قومی ڈائیلاگ کی طرف جانا ہوگا۔ملک کو سوچی سمجھی سازش کے تحت بند گلی کی طرف دھکیلاجارہا ہے۔ اعظم سواتی کے معاملے پر بھی فوری تحقیقات ہونی اوراصل حقائق سامنے لائے جانے چاہئیں۔قومی سیاست میں گھنائونے وغیر اخلاقی اقدامات کسی صورت میں بھی قابل قبول نہیں ہوسکتے۔اسی طرح سیاسی اجتماعات میں اداروں کا نام لے کر تنقیدبھی درست اور مناسب نہیں ہے۔ اس سے ملک کمزور اور قومی اداروں میں اضطراب اور بے چینی کی کیفیت پیدا ہو گی اور نفرتوں کی آگ پھیلے گی۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال سے عالمی میڈیا میں بھی پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔

احتجاج ہر سیاسی جماعت کا حق ہے۔ پاکستان کا آئین ہر شہری کو حدود وقیود میں رہ کر احتجاج کی اجازت دیتا ہے مگر احتجاج کی آڑ میں املاک کو نقصان پہنچانا اورعوام کے لئے مشکلات پیداکرنا کسی طور پر بھی درست نہیں۔ ان حالات میں سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو عام آدمی کی مشکلات کا ادراک کرنا ہوگا۔ ملک وقوم اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتے جب تک آئین کا احترام اورسیاسی استحکام نہیں آجاتا۔اس وقت عوام بدحال ہیں، کسی کو بھی ان کی پروا نہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری اورلاقانونیت نے حالات کو پہلے سے زیادہ خراب کر دیا ہے۔ جب سے اتحادی حکومت برسراقتدارآئی ہے، کوئی ایک بڑا منصوبہ بھی مکمل نہیں ہوا۔ صوبائی حکومتیں اوروفاق کے درمیان آنکھ مچولی کا کھیل جاری ہے۔ جھوٹے بیانیے دے کر عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے جس کے باعث حقیقی تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے۔ سیاسی انتشار،افراتفری کے خاتمے اور بے یقینی کی صورتحال پر قابو پانے کے لئے فوری طورپر انتخابی اصلاحات ناگزیر اور ملک و قوم کوعام انتخابات کی طرف جانا ہوگا۔ ملک وقوم کسی بھی قسم کی محاذآرائی کے خوفناک نتائج کے متحمل نہیں ہو سکتے، جس کے باعث یہ ناگزیر ہوچکا ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز دانشمندانہ فیصلے کریں۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر وزیرآباد میں قاتلانہ حملہ بھی انتہائی افسوسناک اور قابلِ مذمت ہے۔ پنجاب میں پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت ہے۔ سوال یہ ہے کہ چیئرمین عمران خان کو اگرمعلوم تھا کہ ان پر حملہ ہوگا تو پھرلانگ مارچ کو جاری رکھ کر لوگوں کی زندگی کے ساتھ کیوں کھیلا گیا؟ وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے لانگ مارچ کے شرکاء کی حفاظت کے لئے کیوں سیکورٹی کے فول پروف اقدامات نہیں کئے؟ اس افسوسناک واقعے میں ایک شخص جاں بحق اور 14 افراد زخمی ہوئے۔ اس واقعہ کی شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہئیں اور مجرمانہ غفلت برتنے والے سیکورٹی افسروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پولیس کی حراست میں ملزم کی ویڈیو کس کے کہنے پر منظر عام پر آئی؟ عمران خان کو گولیاں لگنے کے حوالے سے پی ٹی آئی کے دیگر رہنمائوں ا ور پارٹی چیئرمین کے بیانات میں تضاد نے شکوک و شبہات کو جنم دیاہے۔ اس واقعہ کی جوڈیشنل انکوائری کرواکے نتائج عوام کے سامنے لائے جائیں۔ حکومت اور اپوزیشن کو اس نازک موڑ پر تحمل و بردباری کا مظاہرہ کر کے ملکی حالات کو بہتری کی طرف لے کر جانا چاہئے۔ ایسے لگتا ہے کہ ملک دشمن بیرونی قوتیں بھیانک سازش کے تحت ملک میںحالات خراب کرنا چاہتی ہیں۔اس وقت ملک کے مختلف شہروں میں پر تشدد احتجاج سے صورت حال مزید بگڑرہی ہے۔ملک کی سیاسی صورتحال میں خرابی کے ساتھ ساتھ عوامی مشکلات میں بھی آئے روز اضافہ ہورہا ہے۔وفاقی حکومت کی جانب سے ملک بھر میں گیس کی قلت کی وارننگ بھی تشویشناک ہے۔ اس وقت ملک میں گیس کی طلب 2500ملین کیوبک سے زیادہ ہے جب کہ سپلائی 1700ملین کیوبک ہے۔ملک بھر میں گیس کا 8سو ملین کیوبک کا شارٹ فال ہے۔ سردیوں میں اضافے کے ساتھ ہی طلب میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے اگر بروقت اقدام کیا ہوتا تو آج صورت حال اس قدر گھمبیر نہ ہوتی۔ قلت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایران اور روس سے گیس کے حصول کو یقینی بنایا جائے۔ آنے والے دنوں میں جہاں عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، وہاں صنعتیں اور کاروبار بھی متاثر ہوں گے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ حکمران اور اپوزیشن دونوں کو ہی عوام کے مسائل کے حل سے کوئی غرض نہیں ہے۔ بدقسمتی سے دونوں ہی اپنے مفادات کے حصول کی خاطر محاذ آرائی پر اتر آ ئے ہیں۔ہمارے ملک میں ستر برسوں سے جاری فرسودہ نظام نے صرف اشرافیہ کو ہی مضبوط کیا ہے۔ عوام ہر دورمیں پستے چلے آرہے ہیں۔ اتحادی حکومت مہنگائی کے خاتمے اور عوام کو ریلیف دینے کا ایجنڈا لے کر اقتدار میں آئی تھی مگر بد قسمتی سے پی ڈی ایم حکومت بھی سابقہ حکومت کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔ ملک بھر میں سطحٔ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی شرح 33فیصد تک جاپہنچی ہے۔

تازہ ترین