پہلے ہی بہت دیر ہو چکی تھی۔ یہ استعفیٰ تو پچھلے سال آ جانا چاہئے تھا، مصطفیٰ نواز کھوکھر اس انتظار میں تھے کہ ان سے استعفیٰ مانگا جائے تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ انہوں نے سیاسی وفاداری تبدیل کرلی۔ صبر کا مقابلہ تھا۔
جیسے ہی مصطفیٰ نواز کھوکھر سے استعفیٰ مانگا گیا تو انہوں نے ایک لمحے کی تاخیر کئے بغیر ہاں کہہ دی اور استعفیٰ مانگنے والوں کو بھی حیران کردیا۔ وجہ یہ ہے کہ کسی سینیٹر سے استعفیٰ مانگنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ اسی پیپلز پارٹی نے ماضی میں اپنے ایک سینیٹر بابر اعوان سے استعفیٰ مانگا تھا۔ موصوف وکیل تھے، قانون کو بہت اچھی طرح سمجھتے تھے لہٰذا استعفیٰ مانگنے والوں کو اپنے پیچھے بھگاتے رہے۔
بطور سینیٹرجب ان کی مدت ختم ہونے والی تھی تو ایک دن استعفیٰ دے کر تحریک انصاف میں چلے گئے۔ بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ پیپلز پارٹی رحمان ملک سے بھی خوش نہ تھی۔ ملک صاحب پارٹی قیادت سے پوچھے بغیر اہم شخصیات سے ملاقاتیں کرتے رہتے تھے اور بطور سینیٹر اپنے کنڈکٹ سے بھی پارٹی کو ناراض کر چکے تھے۔ ان سے استعفیٰ مانگا گیا تو انہوں نے مسکرا کر ٹال دیا۔ پھر بیمار ہوگئے اور دنیا سے رخصت ہوگئے۔
پارٹی قیادت کا خیال تھا کہ مصطفیٰ نواز کھوکھر سے استعفیٰ مانگا گیا تو وہ بھی بابر اعوان اور رحمان ملک کی طرح لیت و لعل سے کام لیں گے۔ لیکن مصطفیٰ نواز تو شاید پہلے ہی تیار بیٹھے تھے، انہوںنے پیامبر سینیٹر فاروق نائیک کو نہ صرف ہاں کہہ دیا بلکہ سوشل میڈیا پر اپنے مستعفی ہونے کا خود ہی اعلان بھی کردیا۔
عام خیال یہ ہے کہ اس استعفے کی فوری وجہ مصطفیٰ کا وہ بیان ہے جو انہوں نے اپنے ایک ساتھی سینیٹر اعظم سواتی کے حق میں دیا تھا اور کہا تھا کہ انہیں ایک خفیہ ادارے کے افسر نے فون کرکے بتایا ہے کہ اعظم سواتی کی سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو جعلی ہے لیکن میں نے مذکورہ افسر کو کہا ہے کہ آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھڑے ہیں تو میں اپنے ساتھی کے ساتھ کھڑا ہوں۔
یہ بیان ایک فوری وجہ بنا جس کے بعد مصطفیٰ سے استعفیٰ مانگا گیا۔ پارٹی سے اختلاف کافی پرانا تھا۔ کچھ لوگ مصطفیٰ کو ان کے والد حاجی نواز کھوکھر اور چچا امتیاز کھوکھر (تاجی) کے طرز سیاست سے کافی مختلف پاتے ہیں۔
حاجی نواز کھوکھر قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر تھے اور آصف زرداری صاحب کی دوستی میں مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں آئے۔ میں نے مشرف دور میں زرداری صاحب اور کھوکھر برادران کو احتساب عدالتوں میں اکٹھے کئی مقدمات بھگتتے دیکھا ہے اور شاید یہی وہ تعلق تھا جس کی وجہ سے مصطفیٰ کو سندھ سے پیپلز پارٹی نے اپنا سینیٹر بنایا۔
پیپلز پارٹی کی قیادت مصطفیٰ نواز کھوکھر میں صرف ایک وفادار خاندانی دوست تلاش کرتی رہی لیکن اس چنگاری کو نہ دیکھ پائی جسےبہت سے لوگ کافی عرصہ پہلے دیکھ چکے تھے۔
مصطفیٰ نواز کھوکھر جب اسلام آباد کے ایک اسکول میں پڑھتے تھے تو ایک دفعہ سالانہ چھٹیوں کے مسئلے پر اسکول کی انتظامیہ کے خلاف ساتھی طلبہ کے ساتھ مل کر مظاہرہ کرا دیا۔
اسلام آباد کالج فار بوائز میں پہنچے تو امتحانات وقت پر نہ کرانے کے مسئلے پر ہڑتال کرا دی۔ والد صاحب نے محسوس کیا کہ بیٹے کو لیڈر بننے کا شوق ہے۔
انہوں نے اسے ’’بندے کا پتر‘‘ بنانے کے لئے اعلیٰ تعلیم کے لئے برطانیہ بھیج دیا۔ مصطفیٰ نے یونیورسٹی آف بکنگھم میں بین الاقوامی قانون پڑھنا شروع کردیا اور وہاں صفدر ہمدانی کو ان کا نگران بنایاگیا۔
صفدر ہمدانی کسی زمانے میں قائد اعظم یونیورسٹی میں سٹوڈنٹ لیڈر تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بہت قریب تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا لگایا توبرطانیہ چلے گئے۔ چاچا صفدر ہمدانی نے ناہید خان سمیت بہت سے سیاسی کارکنوں کو پاکستان سے برطانیہ بلایا لیکن اپنے ترقی پسندانہ خیالات کی وجہ سے پارٹی کے اندر موجود ’’فیوڈل ازم‘‘ سے سمجھوتہ نہ کر سکے۔
سیاست میں فوج کے کردار پر ان کا موقف انتہائی غیر لچکدار تھا۔ برطانیہ میں وہ اپنے بہت سے کامریڈ ساتھیوں کے ہمراہ ایک مشکل زندگی گزارتے تھے اور اس مشکل زندگی نے مصطفیٰ نواز کھوکھر کی سیاسی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد مصطفیٰ نواز کھوکھر آئی سی آر سی (انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس) کے قانونی مشیر بن گئے اور انہیں پتہ چلا کہ پاکستان میں ریاستی ادارے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں صرف مقامی قانون نہیں بلکہ بین الاقوامی قانون کو بھی پامال کرتے ہیں۔
2011ء میں انہیں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی حکومت میں مشیر برائے انسانی حقوق مقرر کیا گیا۔ مجھے یاد ہے کہ ان دنوں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بہت زیادہ ڈرون حملے ہوتے تھے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت ان ڈرون حملوں پر زیادہ شور نہیں مچاتی تھی لیکن مصطفیٰ نواز کھوکھر نہ صرف ڈرون حملوں کی مذمت کرتے بلکہ مطالبہ کرتے کہ حکومت اس معاملے کو اقوام متحدہ میں اٹھائے۔ مصطفیٰ کے دو ٹوک موقف سے پارٹی قیادت پریشان رہتی تھی لیکن عوامی سطح پر پارٹی کو فائدہ ہوتا اس لئے مصطفیٰ کو برداشت کیاگیا۔
2018ء میں وہ سینیٹر بن گئے۔ 2019ء میں جب عمران خان کی حکومت نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ کیا تو مصطفیٰ شدید ذہنی صدمے سے دو چار ہوئے۔ انہوں نے پارٹی کے اندر رہ کر اختلاف کیا لیکن انہیں خاموش کرا دیاگیا۔ پارٹی کی سیاسی قلابازی پر ان کا دل ٹوٹ گیا تھا۔
2020ء میں تربت میں کراچی یونیورسٹی کے ایک طالب علم حیات بلوچ کو ایف سی والوں نے اس کے والدین کے سامنے گولی مار دی۔ مصطفیٰ سینٹ کی ہیومن رائٹس کمیٹی کے سربراہ تھے۔ انہوں نے آئی جی ایف سی کو کمیٹی کے اجلاس میں طلب کرکے اپنی پارٹی کے بڑے بڑے ’’جمہوریت پسندوں‘‘ کو ناراض کرلیا۔
بریکنگ پوائنٹ اس وقت آیا جب چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں مصطفیٰ اور مصدق ملک نے پولنگ بوتھ کے اندر خفیہ کیمرے پکڑ کر طاقتوروں کو ناراض کیا۔ کچھ دن بعد یوسف رضا گیلانی نے عمران خان کی اتحادی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے ووٹ لے کر اپوزیشن لیڈر کا عہدہ حاصل کیا تو مصطفیٰ نے اس ’’سودے بازی‘‘ کو مسترد کردیا۔ فیصلہ ہوا کہ ان سے سینیٹر شپ واپس لی جائے لیکن پھر انہیں بلاول کی ترجمانی سے ہٹانے پر اکتفا کیا گیا۔
بالکل ویسے ہی جیسے کچھ دن پہلے ایسی ہی ایک ’’سودے بازی‘‘ پر مسلم لیگ (ن) نے اعظم نذیر تارڑ کو وزارت قانون سے استعفے پر مجبور کردیا۔ تارڑ صاحب کے استعفیٰ کے بعد مصطفیٰ کو یقین تھا کہ اب ان سے بھی استعفیٰ مانگا جائے گا۔
انہوں نے استعفیٰ کو کسی بوجھ کی طرح اتار پھینکا ۔ کچھ لوگوں کے خیال میں ان کی اگلی منزل تحریک انصاف ہے۔ ایسا نہیں ہوگا کیونکہ تحریک انصاف میں بھی کئی مصطفیٰ نواز کھوکھر اپنے دل کا بوجھ اتارنے کی تیاری میں ہیں۔ تین بڑی پارٹیوں میں فرق ختم ہو چکا۔ تینوں میں بغاوت ہوگی۔