• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث کرۂ ارض جل رہا ہے اور اس آگ میں لاکھوں افراد بھسم ہورہے ہیں۔ 80 فی صد زہریلی گیسوں کے اخراج کے ذمے دار G-20 کے ممالک، ہیں جب کہ ان کے بدترین اثرات پاکستان اور دوسرے ترقی پزیر ممالک بھگت رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کا بحران اخلاقی اور معاشی عدم مساوات کے مطالعے کے لیے ایک مثال ہے۔ موجودہ دنیا کو کئی مسائل کا سامنا ہے جن میں غذائی تحفظ، موسمیاتی تبدیلی اور زرعی اجناس اور مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتیں شامل ہیں۔ 

موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے کئی ممالک کو قدرتی آفات کا سامنا ہے۔ عالمی سطح پر غیر معمولی بارشیں تباہی پھیلا رہی ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کے سب سے کم ذمے دار ممالک بدترین نتائج کا سامنا کررہے ہیں۔ متاثرہ ممالک عالمی برادری کی جانب سے ٹھوس اقدامات کے منتظر ہیں۔ جی 20 جیسے ترقی یافتہ ممالک کو ترقی پزیر ممالک کی خصوصی مدد کے لیے آگے آنا ہوگا۔ پوری دنیا فوسل فیول کے نشے کی عادی ہوگئی ہے۔ یہ نشہ ختم کروانے کا وقت آگیا ہے، تیل اور ایندھن کی کمپنیوں اور ان کے آلہ کاروں کے احتساب کی ضرورت ہے۔ 

موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیات کی تباہ کاری آج کا انکشاف نہیں ہے۔ ماحولیاتی تباہی کا سبب صنعتی ترقی ہے، جس کی وجہ ایندھن کا استعمال ہے۔ دوعشرے قبل ہی ماہرین خبردار کرچکے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پوری دنیا کو سیلاب اور خشک سالی کا بیک وقت سامنا کرنا پڑے گا۔ کہیں بارشیں زیادہ ہوں گی۔ گلیشیر پگھلنے کی وجہ سے دریائوں میں سیلاب آئے گا اور کچھ خطے خشک سالی کا شکار ہوں گے۔ پاکستان میں بارش اور سیلاب ہے۔ جب کہ افریقا اور لاطینی امریکا کے بعض خطے خشک سالی کا شکار ہیں۔

کم ازکم دو عشرے قبل ماحولیاتی ماہرین نے خبردار کردیا تھا کہ ہم موسم کے رتھ پر سوار تیزی سے میدانِ حشر کی جانب رواں ہیں تو ہم نے سائنسدانوں اور مفکرین کی تنبیہات کو سنجیدہ نہیں لیا۔ جب پانچ برس پہلے پہلی خبر آئی کہ انٹارکٹیکا میں درجۂ حرارت بیس درجہ سینٹی گریڈ کی سطح پر آنے کے سبب لاکھوں برس پرانی برف سے ڈھکی چٹانیں ختم ہو رہی ہیں۔ 

جب گزشتہ برس کینیڈا اور امریکا کے مغربی ساحل پر وینکوور اور سیاٹل کے اضلاع میں درجۂ حرارت نے پہلی بار پینتالیس ڈگری سینٹی گریڈ کا ریکارڈ قائم کیا تو ہم نے فرض کر لیا کہ یہ تو محض حسنِ اتفاق ہے۔ جب پچھلے سال برمنگھم میں عالمی ماحولیاتی سربراہ کانفرنس کے موقع پر اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ شاید ہمارے ہاتھ سے وقت نکل چکا ہے ، درجۂ حرارت میں تیز رفتار تبدیلی بتا رہی ہے کہ اب سے آٹھ برس بعد دنیا کے کئی خطوں میں زندگی ناقابلِ برداشت ہو جائے گی۔ ہم نے سوچا کہ یہ محض قیاس آرائی ہے۔ ایسے تھوڑی ہوتا ہے، مگر آج کا موسمِ بتا رہا ہے کہ کوئی سائنسداں یا خطرے کا بگل بجانے والا مدبر نہیں بلکہ ہم بجائےخود خوش فہم اور عاقبت نااندیش ہیں اور آج مِس مینجمنٹ کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔

پرانی روایت تو یہ ہے کہ صبح سویرے کھلی فضا میں گہرے سانس لینے سے دل کو تسکین اور دماغ کو راحت و تازگی مہیا ہوتی ہے۔ مگر یہ بات صبح کی تازہ ہوا پر صادق آتی ہے جو آج ہمیں میسر نہیں اور اس کی وجہ ہم خود ہی ہیں۔ آج جدید سائنسی دور اور مصروف ترین زندگی میں ماحولیاتی آلودگی ایک بین الاقوامی چیلنج بن چکی ہے۔ 

ماحولیاتی آلودگی میں بری، بحری اور فضائی آلودگی بھی شامل ہیں اور ان آلودگیوں کے سبب انسان تو انسان، حیوان، چرند پرند حتیٰ کہ نباتات تک بری طرح متاثر ہو رہے ہیں، کیوں کہ انھیں ایسی کھلی فضا، صاف ہوا اور تر و تازہ ماحول ہی میسر نہیں ،جس میں وہ صحت بخش سانسیں لے سکیں۔ آج جس فضا میں ہم سانس لے رہے ہیں۔ اسے مختلف کیمیائی مرکبات نے نہایت آلودہ بنا دیا ہے، جس سے کرہ ٔارض پر زندگی اور زمینی ماحولیات کو مسلسل نقصان پہنچ رہا ہے۔

ہم نے پہلے جنگلات کو بے دریغ کاٹنا شروع کیا، دریاؤں سے بے تحاشہ ریت بجری اٹھانی شروع کی ،جس سے دریاؤں کی سطح میں کھارا پانی عود آیا۔ اس نے سمندروں سے کثیر تعداد میں مچھلیاں پکڑ کر انھیں اپنی غذا بنایا، جس سے سمندری حیات کا وجود خطرے میں پڑگیا۔ جنگلات کے کٹاؤ سے فضا میں آکسیجن کی کمی ہو گئی۔ فطرت کے حسن کو فیکٹریوں سے اٹھنے اور گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں نے دھندلا دیا اور ساری فضا زہریلی بن گئی۔سمندروں اور دریاؤں میں فیکٹریوں اور کارخانوں سے نکلنے والے کیمیائی فضلے کی موجودگی نے پانی کو زہر آلود کر دیا۔ فضائی آلودگی نے کرہ فضائی یعنی زمین کی حفاظتی غلاف ’’اوزون‘‘ میں سوراخ کر دیا ،جس سے سورج کی تیز شعاعوں کے ساتھ بالائے بنفشی لہریں بھی سطح زمین تک زیادہ مقدار میں پہنچنے لگیں تو جلد کے سرطان جیسے موذی و مہلک امراض بھی شدت اختیار کرنے لگے۔

ادھر بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی اور نتیجتاً بلند تر ہوتی ہوئی عالمی تپش (گلوبل وارمنگ) نے رفتہ رفتہ قطبین پر جمی برف کو پگھلانا شروع کردیا۔ قطبین پر وسیع و عریض برفانی تودوں کی شکل میں میٹھے پانی کے ذخائر پگھل پگھل کر سمندر میں داخل ہو رہے ہیں اور ان کی دبازت اور رقبے دونوں میں بتدریج کمی واقع ہوتی جا رہی ہے۔ اگر ہم نے قدرتی ماحول کے ساتھ ’’انسانی ترقی‘‘ کے نام پر سنجیدہ مذاق کا سلسلہ بند نہ کیا تو خدشہ ہے کہ آنے والے پچیس سے تیس سال میں ہم ماحول کو اتنا شدید نقصان پہنچا چکے ہوں گے ، جس کی تلافی بھی ممکن نہ ہو گی، ہماری اس عاقبت نا اندیشی کے نتیجے میں نہ صرف دوسرے جانداروں بلکہ خود ہمارا نوع انسانی کا وجود اور مستقبل خطرے میں پڑ چکا ہے۔

ہماری فضا و ہوا کو زہریلا و آلودہ کرنے والے عناصر میں گاڑیوں اور کاروں سے نکلنے والے دھوئیں میں شامل مختلف مرکبات کے ساتھ کاربن، سیسے اور سلفر کے مرکبات بھی شامل ہوئے ہیں۔ یہ سیسہ انسانی اعصابی نظام اور ذہن پر برے اثرات مرتب کرتا ہے جب کہ سلفر کے مرکبات تیزابی بارشوں کا سبب بنتے ہیں، جس سے انسانوں کے ساتھ ساتھ نباتاتی حیات و حیوانات بھی متاثر ہوتے ہیں ۔زمینی تیزابیت میں اضافہ ہوتا ہے اور پودوں، پھلوں اور فصلوں کی پیداوار اور معیار بھی متاثر ہوتے ہیں۔

فیکٹریوں کی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں اور ان کے فضلات دریاؤں اور ندیوں میں بہا دیے جاتے ہیں جو پانی کو آلودہ کر رہے ہیں ۔ندیوں میں بہنے والا سیال جتنا شفاف پانی ہوتا ہے اتنا ہی سیاہ بھی ہے فیکٹریوں کے دھوئیں اور فضلات میں ہیلوجن، سلفر اور نائٹروجن کے مرکبات کاربن مونو آکسائیڈ کاربن ڈائی آکسائیڈ، ہائیڈرو کاربن، ہائیڈروجن سلفائیڈ، کرومیم، لیڈ اور کاپر کے علاوہ آرسینک جیسی خطرناک دھات بھی شامل ہوتی ہے جن سے ہماری صحت کو کئی طرح کے نقصانات و بیماریاں، دل کے امراض، اعصابی امراض، ذہنی و جسمانی امراض، پیٹ کی بیماریاں، گردے کی بیماریاں اور کینسر جیسے مہلک امراض لاحق ہوسکتے ہیں۔

گردے اور پیٹ کے امراض خاص طور پر پانی کی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ آلودہ پانی میں موجود مختلف اقسام کےبیکٹیریا کو انسانی جسم میں پرورش کے سازگار حالات میسر آجاتے ہیں جو خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ سمندری پانی میں آلودگی کی ایک وجہ بحری جہازوں سے تیل کا بہنا بھی ہے جو پانی کی اوپری سطح پر پھیل کر پانی میں آکسیجن کو داخل ہونے سے روکتا ہے، جس سے آبی حیات کو آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے اور بہت سے پرندے اور مچھلیاں وغیرہ اس تیل میں پھنس کر مر جاتے ہیں۔

کوڑا کرکٹ، درختوں اور جنگلات کے جلنے سے بھی کئی طرح کی مضر صحت گیسیں اور زہریلے مرکبات ماحول کو مسلسل آلودہ کر رہے ہیں، فصلوں اور دوسری اشیا کو مختلف بیماریوں اور کیڑوں سے بچانے کے لیے متعدد ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے جن کے استعمال سے کارسینو جینک اثرات مرتب ہوتے ہیں یہ ادویات نہ صرف ہماری فضا بلکہ غذا کو بھی آلودہ بناتی ہیں۔ 

ہمارے ماحولیاتی آلودگی کا ایک اور سبب پولی تھین کے تھیلے بھی ہیں جو تحلیل نہیں ہوتے اور اگر انھیں جلایا جائے تو اس عمل سے ضرر رساں کیمیائی اشیا اور گیسیں کاربن ڈائی آکسائیڈ وغیرہ کی ایک کثیر مقدار خارج ہوتی ہے چنانچہ انھیں جلایا بھی نہیں جاسکتا پھر جو چیزیں ان میں بند ہوتی ہیں وہ سڑتی ہیں جن سے طرح طرح کے جراثیم آرگینزمس پیدا ہوتے ہیں جو مختلف قسم کی بیماریوں اور ماحول کی غیر صحت یابی کے ذمے دار بنتے ہیں۔ ریفریجریشن، پیکیجنگ اور ہمارے زیر استعمال مختلف اقسام کے اسپرے میں ایک خاص قسم کے کیمیائی مرکبات استعمال ہوتے ہیں جنھیں کلورو فلورو کاربن کہا جاتا ہے انھیں مختصراً سی ایف سی بھی کہتے ہیں ان کا ایک اور نام قریٹون بھی ہے۔ 

جن کے بارے میں سائنس دان 1970ء کے وسط میں واقف ہوئے کہ یہ مرکبات اوزان کی تباہ کاری کا باعث بن رہے ہیں جو ہماری زمین کے گرد ایک تہہ کی صورت میں حفاظتی غلاف ہے اور بالائے بنفشی شعاعوں کو سطح زمین تک پہنچنے سے روکتی ہے۔ سی ایف سی یا کلوروفلورو کاربن فضا میں خوب نفوذ کر جاتے ہیں اور زمین کے گرد موجود ذرّات اسٹیریٹو اسفیئر میں پہنچ جاتے ہیں جہاں اوزون پایا جاتا ہے پھر کلورین کا ریڈیکل او زون کے ساتھ تعامل کرتا ہے، جس کے نتیجے میں آکسیجن اور کلورین کا آکسائیڈ حاصل ہوتا ہے اور یوں اوزون کا مالیکیول تباہ ہو جاتا ہے۔ 

ماحولیاتی آلودگی آج ہمارے لیے ایک ایسے سنگین اور خطرناک مسئلے کے طور پر ابھر رہی ہے کہ جس کا سدباب نہ کیا گیا تو آنے والے دنوں میں ہمارا ماحول اپنے قدرتی اور فطری پن کو کھو بیٹھے گا اور آنے والی نسلیں متعدد بیماریوں میں مبتلا ہوکر معاشرے کو ایک اذیت زدہ معاشرہ بنادے گی، جس طرح ماحولیاتی آلودگی مسلسل بڑھتی جارہی ہے اسی طرح دنیا بھر میں موسمی تبدیلی بھی تیزی سے رونما ہورہی ہے اور ماہرین موسمیاتی تبدیلیوں کو دہشت گردی سے بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ 

آلودگی ہمارے دور کا سب سے سنگین اور گمبھیر مسئلہ بن چکا ہے، ترقی یافتہ ممالک تو وسائل بروئے کار لاکر کسی حد تک آلودگی پر قابو پانے میں کامیاب ہونے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ترقی پذیر ممالک جو وسائل کی کمی کا شکار ہیں آلودگی پر قابو پانے سے قاصر ہیں۔ خاص طور پر ایشیائی ممالک تو بری طرح آلودگی کا شکار ہیں اور یہاں کی تقریباً نصف آبادی پر موسم اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے گہرے اثرات بھی مرتب ہورہے ہیں۔

نیز ایشیائی حکومتیں موسمیاتی تبدیلیوں کا مناسب جواب دینے میں ناکام رہی ہیں حالانکہ موحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر خطے کی زد پذیری اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ حکومتیں اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے اپنی سرکاری مشینری کی استعداد بڑھاتے ہوئے تمام تر وسائل بروئے کار لائیں۔ ایشیائی حکومتوں کے سامنے یہ امکان واضح ہونے کے بعد کہ خطہ مستقبل میں موسمیاتی تبدیلیوں سے زیادہ متاثر ہوگا، اولین ترجیح آفات کے خطرات میں کمی کا موثر ترین طریقہ کار اختیار کرنا اور انسانی جانوں کا حتی المقدور تحفظ ہونا چاہیے، ایشیا دنیا میں آفات کے سب سے زیادہ خطرات سے دو چار ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ماحول کو بہتر بنانے کے لیے اقوام پر عالمی دباؤ میں اضافہ ہورہاہے ،جس سے مفر ناممکن ہے۔ 

لہٰذا موسمیاتی و موحولیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات پر مکمل قابو انسان کے لیے ممکن نہیں تھا اور نا ہی کبھی ہو گا،تاہم احتیاطی تدابیر اختیار کرکے جانی و مالی نقصانات کے ممکنہ خدشات سے حتی الامکان بچا جاسکتا ہے ۔اسی طرح ماحولیاتی آلودگی بھی وہ اہم اور مستقل خطرہ ہے، جس پر قابو پانے کا سوال آج ہر ذہن میں گونج رہا ہے، کیوں کہ آلودگی اپنے ساتھ جو سنگین مشکلات لے کر آتی ہے۔ اس پر قابو پانا کوئی معمولی بات نہیں اور اس کے نقصانات تو الگ ہیں ہی ہم اپنے ماحول کو خود تباہ کررہے ہیں لیکن افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ ہم تدارک ڈھونڈنے کے بجائے آلودگی کو بڑھارہے ہیں۔

ہمارا ماحول کس طرح تباہ ہورہا ہے، وہ کیا وجوہات ہیں کہ جن کی وجہ سے آج ہمارا قدرتی و فطری ماحول پراگندہ ہوچکا ہے، اس کے لیے ہمیں ان عوامل کا بھی تفصیلی جائزہ لینا ہوگا جو آلودگی کے پھیلاؤ میں معاون ثابت ہورہے ہیں۔ یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ کوئلے، گیس اور پٹرولیم کو ہماری زندگی میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ یہ تینوں ذرائع توانائی کے ماخذ ہیں، گھریلو ضروریات پورا کرنے کے لیے گیس اور مٹی کا تیل اکثر استعمال ہوتا ہے اور یہی ذرایع موٹر گاڑیوں، ریلوے، ٹرین، ہوائی جہاز اور کارخانے چلانے کے کام آتے ہیں، ان کا استعمال بڑھتی ہوئی انسانی ضروریات کے ساتھ بڑھتا چلا جارہاہے، توانائی کے انھی ذخیروں کی مدد سے انسان اپنے معیار زندگی کو بہتر بنانے میں کامیاب ہوا ہے جیسے جیسے آبادی اور معیار زندگی بڑھ رہا ہے کوئلے، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے۔ 

ہزاروں کارخانے، لاکھوں گاڑیاں اور کروڑوں گھر توانائی کے ان ذرایع کو استعمال میں لارہے ہیں اور ان کے استعمال سے پیدا ہونے والی زہریلی گیس و مادّہ فضا میں تحلیل ہورہی ہیں اور ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں صرف پٹرولیم کی مصنوعات یعنی پٹرول، ڈیزل یا مٹی کا تیل 10 ملین ٹن سے زیادہ ایک سال میں استعمال ہوتے ہیں، کوئلہ، گیس اس کے علاوہ ہیں اب آپ خود اندازہ کرلیجیے کہ جب اتنی بڑی مقدار میں توانائی کے یہ ذرایع استعمال ہورہے ہیں، تو ان کے جلنے سے کتنی بڑی مقدار میں زہریلی گیسز اور ضرر رساں مادّے اور کثافتیں فضا میں بکھر کر ماحول کی خرابی کا باعث بن رہی ہیں۔

پاکستان میں کوئلہ عام طور پر اینٹوں کے بھٹوں میں استعمال کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ کارخانوں کے بوائلروں اور خصوصاً بجلی پیدا کرنے والے تھرمل پلانٹ میں جلایا جارہا ہے، اس کے علاوہ گھروں میں ایندھن کے طور پر جلنے والی گیس عرف عام میں سوئی گیس کا استعمال بھی پاکستان میں عام ہے۔ اس کے استعمال سے دھواں بخارات، فضا، صحت اور عمارات کے لیے مضر اور نقصان دہ ہیں۔ دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں ہر نزدیکی چیز پر اثر انداز ہوتی ہیں اور ان کو گندہ کرتی چلی جاتی ہیں، سانس لینا دوبھر ہوجاتا ہے، پودوں کا رنگ سبزی مائل کے بجائے سیاہی مائل اور بعض اوقات پیلا ہوجاتا ہے۔

صنعتی علاقوں میں اکثر دھند چھاجاتی ہے جسے فوگ (FOG) یا سموگ (SMOG) کہتے ہیں، اس سے دیکھنے اور سانس لینے کے عمل میں مشکلات ہوتی ہیں اور بصارت کم ہوجاتی ہے۔ اس دھند کے محرکات میں آب و ہوا اور موسم کی تبدیلی کے علاوہ صنعتی دھواں بھی شامل ہے، دراصل پانی کے بخارات اس پر جم کر ا سموگ پیدا کرتے ہیں۔ لندن، لاس اینجلس اور ٹوکیو کے شہر اس وجہ سے خاصے بدنام ہیں۔

پاکستان میں لاہور اور کراچی میں اب یہی صورتحال پیدا ہورہی ہے ۔ کچھ عرصے سے کراچی اور لاہور میں آنکھوں کی جلن، سانس میں دشواری، کھانسی، گلے، ناک اور کان کی بیماریاں اور پھیپڑوں کی بیماریاں عام پھیل رہی ہیں اور الرجی کے مریضوں میں مسلسل اضافہ ہورہاہے، لاتعداد افراد ان بیماریوں کا شکار ہوچکے ہیں اور بتدریج ہورہے ہیں، یہ زہریلی گیس کس طرح ہمارے ماحول اور ہماری صحت کو نقصان پہنچاتی ہیں ۔ہم اس کے تدارک کے بجائے دن رات ماحول کو آلودہ بنانے میں مصروف ہیں۔ ماہرین کے مطابق ملک میں جنگلات کے رقبے میں اضافے سے نہ صرف ماحولیاتی آلودگی کنٹرول کی جاسکتی ہے بلکہ یہاں کے موسموں کو بھی زیادہ انسان دوست بنانا ممکن ہے، واضح رہے کہ ماحولیاتی آلودگی ہی نہیں بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں اور پاکستان پر ان کے اثرات کے حوالے سے ملک کے لیے جنگلات کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ ہوچکی ہے۔ 

جنگلات سیم و تھور کو روکتے ہیں، ماحول کی آلودگی اور ماحول کو لاحق دیگر خطرات کو روکنے کا فطری و قدرتی ذریعہ ہیں۔ جنگلات کی تیزی سے کٹائی سیلابوں کی وجہ بنتی ہے۔جنگلات کی وجہ سے قائم ہونے والا ماحولیاتی توازن فصلوں کو طوفان اور دیگر قدرتی آفات سے محفوظ رکھتا ہے۔ جنگلات فصلوں کی پیداواری اہمیت برقرار رکھتے ہیں، مختلف صنعتوں میں ماحول کو صاف ستھرا اور صحت مند رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ 

کاربن ڈائی آکسائیڈ کو سب سے زیادہ جذب کرتے ہیں۔ لہٰذا تمام ممالک بالخصوص ایشیائی ممالک سمیت ہمارے وطن عزیز کو بھی چاہیے کہ وہ جنگلات کے رقبے میں اضافے کو یقینی بنائیں، پریشان کن بات یہ ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں کم از کم تین فی صد جنگلات کا خاتمہ ہورہاہے۔ بین الاقوامی ماہرین کے مطابق جنگلات ،درخت پودے، سبزہ ہریالی فطرت کے ماحولیاتی نظام کا بہت اہم حصہ ہیں اور ان کے ذریعے بخوبی ماحولیاتی آلودگی و موسمیاتی تبدیلیوں اور دلخراش تباہ کاریوں پر موثر انداز میں قابو پایا جاسکتا ہے۔ موجودہ صورتحال اس ضمن میں سنجیدہ، دور رس، طویل المیعاد اور جامع اقدام کی طالب ہے۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
سائنس و ٹیکنالوجی سے مزید