پاکستانی معیشت میں جادوگر کا لقب پانے والے اسحاق ڈار نے گزشتہ دنوں سود کے خاتمےکیلئے ایسا اعلان کردیا جس کی ہرگز توقع نہیں کی جا رہی تھی۔
سود کے خلاف حکومت کی طرف سے دائر کردہ اپیل واپس لینے کا اعلان کر کے انہوں نے نہ صرف کروڑوں مسلمانوں کے دل جیت لئے،بلکہ اپنے کریم رب کے حضور سرخرو ہوگئے.
سود کی لعنت کے حوالے سے ہم نے انہی کالموں میں متعدد مرتبہ عرض کیا تھا کہ سود اللہ کے خلاف اعلان جنگ ہے اور کسی بھی صورت میں اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی،سودی کاروبار کو جاری رکھنا نہ صرف ملکی معیشت کیلئے زہر قاتل ہے بلکہ اللہ اور اس کے رسول کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں بنیادی نکتہ بھی یہی ہے کہ اس ملک خداداد میں قرآن و سنت سے متصادم کوئی قانون نہیں بن سکے گا لیکن گزشتہ کئی سال سے اب تک ہماری معیشت، ہماری بینکاری اور ملک کا مالیاتی نظام سود جیسی لعنت سے آلودہ ہے، ان حالات میں ہم یہ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ اللہ کریم کی رحمت اس ملک کی طرف متوجہ ہو۔
ایسے حالات میں جب کہ ملک کے تمام معیشت دان سود جاری رکھنے کے حق میں دلائل کے انبار لگا رہے ہوں ملک کے چوٹی کے بینکر،سود کے خاتمے کو ناقابل عمل قرار دے رہے ہوں، عالمی معاشی حالات سود کے خاتمےکیلئے ناموافق ہوں.
ان مشکل حالات میں سود کے خاتمے اور اعلیٰ عدالتوں میں دائر اپیلیں واپس لینے کا حکومتی اعلان اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان کی معاشی ٹیم کے سربراہ اسحاق ڈار نہ صرف اس لعنت کے خاتمے کیلئے پر عزم ہیں بلکہ وہ اللہ اور اسکے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات پر من و عن عمل کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔
جناب اسحاق ڈار کے اس اعلان نے مسلم لیگ کے ماتھے پر لگا ہوا وہ بدنما داغ بھی ختم کر دیا ہے جو اس نے 1992میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کر کے لگایا تھا۔
وفاقی وزیر خزانہ نے ایک ویڈیو بیان میں اعلان کیا کہ ملک میں اسلامی بینکاری کے نظام کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے گورنر اسٹیٹ بینک سے بھی تفصیلی مشاورت کر لی گئی ہے جبکہ وزیراعظم پاکستان نے بھی یہ فیصلہ کرنے کی اجازت دی ہے۔
پاکستان میں سودی نظام کے خلاف جدوجہد تو 1948سے جاری ہے جب بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اسٹیٹ بینک کو سودی نظام کے متبادل نظام تیار کرنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن حکمراں طبقے کی ترجیحات مختلف تھیں اس لئے اس جانب عملی قدم نہ اٹھایا جا سکا۔ تاہم سست روی سے اس جانب سفر جاری رہا۔
سودی نظام پر پہلی کاری ضرب 14 نومبر1992کو لگائی گئی جب وفاقی شرعی عدالت نے ملکی معیشت کو سود سے پاک کرنے کیلئے باقاعدہ ڈیڈ لائن دی اور ایک لائحہ عمل مرتب کیا۔لیکن اس وقت مسلم لیگی حکومت نے اس ڈیڈ لائن پر عمل کرنے کے بجائے سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بنچ میں اپیل دائر کردی۔
یہ اپیل 8 سال زیر التوا رہی اور 23دسمبر 1999کو شریعت اپیلٹ بنچ نے یہ اپیلیں مسترد کردیں۔ مشرف حکومت نے جنوری 2000میں اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیلیں دائر کردیں۔
نظر ثانی کی یہ اپیلیں قریب ڈھائی سال زیر التوا رہیں۔6جون 2002 کو وفاقی حکومت نے ایک بیان حلفی میں سپریم کورٹ میں جمع کرایا جس میں درج تھا ’’حکومت پاکستان نے سود کے خاتمے کے فیصلے پر عمل درآمدکیلئے طریقہ کار اورذرائع ڈھونڈنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ لیکن شریعت اپیلٹ بینچ کے فیصلے کے پیراگراف نمبر 7۔8۔اور9عملی طور پر ناقابل عمل ہیں۔
اگر انہیں نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو پاکستان کی سلامتی اور معاشی استحکام کو شدید خطرات لاحق ہوجائیں گے‘‘ 24جون 2002 کو سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ نے نظرثانی کی درخواست منظور کرتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے اور اپیلوں کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور سود کے خاتمے کا کیس ایک مرتبہ پھر وفاقی شرعی عدالت کو واپس کر دیا۔یوں گیارہ برس گزرنے کے بعد پورے مقدمہ کو ایک مرتبہ پھر زیرو پر لا کر کھڑا کر دیا گیا۔
یہ مقدمہ دوبارہ قریب 20سال تک وفاقی شرعی عدالت میں زیرالتوا رہا۔24جون 2002 کے 11برس کے بعد اس کیس کی پہلی سماعت 3 جون2013 کو ہوئی اور طویل انتظار اور 58 سماعتوں کے بعد 28 اپریل 2022 کو وفاقی شرعی عدالت نے سود کی تمام اقسام کو ممنوع قرار دے دیااور حکومت کو ہدایت کی کہ 31 دسمبر 2027 تک تمام متعلقہ قوانین اسلامی اصولوں کے مطابق تشکیل دیے جائیں۔
وفاقی شرعی عدالت نے لکھا کہ ’’آئین کے آرٹیکل 38(الف)کے تحت حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ سود سے پاک نظام معیشت قائم کرے ‘‘وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید لکھا کہ ’’اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اسٹرٹیجک پلان کے مطابق 30 فیصد بینکنگ اسلامی نظام پر منتقل ہو چکی ہے لہٰذا مزید پانچ برسوں میں ملکی بینکاری نظام کو سود سے پاک کیا جائے‘‘وفاقی شرعی عدالت نے سود لاگو کرنے کے حوالے سے موجودہ قانون ’’انٹرسٹ ایکٹ‘‘کو شریعت کے خلاف قرار دیا اور سودی کاروبار میں لین دین کی اجازت دینے والے تمام قوانین اور اس کی شقیں غیر شرعی قرار دیتے ہوئے انہیں دستور سے نکالنے کا حکم دیا۔
بدقسمتی سے وفاقی حکومت کی جانب سے اس فیصلے کے خلاف ایک مرتبہ پھر نظر ثانی کی اپیل دائر کی گئی جسے ملک بھر کے تمام اسلام پسند حلقوں نے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ماہرین معاشیات اور اسلامی نظام معیشت کے ماہرین،جید فقہا ملکر بیٹھیں اور ایک قابل عمل نظام مرتب کریں تاکہ اسلامی اصولوں کے مطابق بینکاری کا نظام ترتیب دیا جا سکے۔