• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اچانک کمرے میں خاموشی چھا گئی، گُرو جی آنکھیں موند کر صوفے پر نیم دراز ہوئے اور میں کرسی سے قالین پر بیٹھ کر انگڑائیاں لینے لگا ، شام ہورہی تھی اور ہماری بیٹھک دوپہرسے جاری تھی ، کہیں دور سے آتی پرندوں کی آوازوں اور گھر کے سامنے سے گزرتی اِکا دُکا گاڑیوں کے شور کے علاوہ اگر کمرے میں اُس وقت کچھ سنائی دے رہا تھا تو وہ تھی وال کلاک کی ٹک ٹک ،میں قالین سے اُٹھ کر دوبارہ کرسی پربیٹھ ہی رہا تھا کہ دروازہ کھلا اور گُرو جی کا ملازمِ خاص بے آواز قدموں سے چلتا ہوا آیا اوران کے سامنے دوسری مرتبہ تازہ حُقہ رکھ کر اس نے جیسے ہی مجھے چائے کا گرم کپ پکڑایا تو میں بے خیالی میں گُرو جی سے پوچھ بیٹھا ’’ کبھی کسی حسینہ سے محبت بھی ہوئی ‘‘ مگر اس بے تکے سوال پر گُرو جی کے ردِ عمل نے حیران کر دیا ، وہ جوانوں سی پھُرتی سے اُٹھ کر صوفے پر سیدھے بیٹھے ، ان کے تھکے ماندے چہرے پر تازگی دوڑگئی ، ان کی نیند غائب،آنکھیں چمکنے لگیں اور پھر مستی بھرے انداز میں حقے کے 3چار لمبے لمبے کش مار کروہ بولے ’’ چیلا جی کبھی کیا ،ہمارا دل تو آج بھی کسی کے قبضے میں ہے ‘‘ یہ کہہ کر کنکھیوں سے اِدھر اُدھر دیکھنے کی اداکاری کرکے وہ آگے جھکے اور بڑے رازدارانہ اندا ز میں کہا ’’ چیلا جی محبت کرنے کیلئے ہوتی ہے ،سنبھال کر رکھنے کیلئے نہیں‘‘ ۔ اُنہوں نے حقے کے 2کش اور مارے اور پھر صوفے سے ٹیک لگاکر بولے ’’ لیکن چیلا جی کیاہمیں یہ دن بھی دیکھنے تھے کہ جنہیں ہم روزانہ نان چھولے کھلائیں،وہی ہماری محبت کی ٹوہ میں لگ جائیں ، یہ کہہ کر وہ کھلکھلاکر ہنسے مگر نجانے کیوں اس وقت ہنستے ہوئے گُرو جی بہت اُداس اور تنہالگے ۔
اس شام بڑی چالاکی سے محبت کا ذکر گول کر جانے والے جنہیں میں گُرو جی کہہ کر بلایا کرتا وہ کوئی اور نہیں نوابزادہ نصر اللہ خان تھے ، وہ نوابزادہ نصرا للہ جن سے بے شمار ملاقاتیں ، جن کے ساتھ ان گنت یادیں ، جن سے بیسوؤں بار نان چھولے کھائے ، جن کے فریج کی ٹھنڈی برفی اور گرم قہوے کا ذائقہ آج بھی نہیں بھولتا اور جن کے ہمراہ بے شمار ’’ٹاکوں بھری واکیں ‘‘اور چہل قدمیاں کیں ، وہ نوابزادہ نصراللہ جو لطیفوں اور شاعری کی ڈکشنری،جو انتہا کے فقرے باز اورکمال کے جُگتی ، جنہیں پودینے کی خوشبو، حقے کی آواز اور اپنی آنکھیں بہت پسندتھیں ، جنہیں چائے میں پکوڑے بھگو کر کھانے اور آدھی دھوپ اور آدھی چھاؤں میں بیٹھ کر حُقہ یا سگار پینا بہت اچھا لگتا تھا ، جو خوبصورت چہرہ دیکھتے ہی آہ بھر کر کہا کرتے ’’ کاش ہماری سیاست ایسی ہوتی ‘‘ اور جنہیں بھٹو کے وڈیرہ اِزم ، ضیاء کی دوعملی ،بے نظیر بھٹو کے یوٹرن اور نوازشریف کی مفاداتی سیاست ایک آنکھ نہ بھاتی ، وہ نوابزادہ نصراللہ جو اپنی زندگی کے قابلِ فخر لمحے 2ہی بتایا کرتے ’’ ایک 23مارچ کو اُس تاریخی اجتماع میں شرکت کرنا کہ جہاں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی اور دوسرا ہر دباؤ برداشت کر کے صدارتی انتخاب میں ایوب خان کے مقابلے میں فاطمہ جناح کا ساتھ دینا‘‘اور وہ نوابزادہ نصر اللہ جو 60سال تک پاکستانی سیاست کے اہم کردار رہے ، جو جوڑ توڑ کے ورلڈچیمپئن ، جو کنگ میکر ،جو فل ٹائم سیاستدان ، جنہوں نے سیاست میں پیسہ لگایا ، کمایا نہیں اور جنہیں سیاست کے علاوہ واقعی کچھ نہیں آتا تھا۔
وہ میرے گُرو جی کیسے ہوئے پہلے یہ سن لیں ، یہ صدر مشر ف کا زمانہ ، ایک سہ پہر وفاقی دارالحکومت کے سیکٹر جی ایٹ میں انکے گھر آل پارٹیز اجلاس میں ایک نامی گرامی رہنما نے مارشل لاء کیخلاف ایسی جذباتی تقریر کی کہ یوں لگنے لگا کہ تقریر ختم کرتے ہی یہ صاحب یہاں سے بم باندھ کر سید ھا جا کر پرویز مشرف کو اُڑا دیں گے او رپھر اپنی تقریر کے اختتام پر جب موصوف باقاعدہ روپڑے تو اِک عجیب سا سماں بندھ گیا ، خیر اجلاس ختم ہوا اور جب سب لوگ جا چکے تو ایک کونے میں حُقہ پیتے نوابزادہ صاحب سے میں نے کہا کہ ’’دیکھا یہ ہوتی ہے جمہوریت پسندی اور دلیری‘‘ نوابزادہ صاحب زیرِ لب مسکرا کر بولے ’’ یہ مارشل لاء کی چاہت اور اس کے اندرکی Guilty Feelingsتھیں ‘‘ ، میں نے حیران ہو کر کہا’’ کیا مطلب‘‘، کہنے لگے ’’ یہ بہت جلد مشرف سے مل جائے گا ‘‘ میں بے یقینی سے بولا ’’ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، یہ ہو ہی نہیںسکتا‘‘ ،وہ بڑے اعتماد سے بولے ’’ ایسا ہی ہوگا‘‘یہ سن کر میں نے بڑے جذباتی انداز میں کہا ’’اگر ایسا ہو گیا تو میں آپکو گُرو مان جاؤں گا ‘‘ اور پھر دوستو ٹھیک 22دنوں کے بعد مجھے ایک دوپہرحُقہ پیتے اور معنی خیز مسکراہٹیں پھینکتے نوابزادہ صاحب کو گُرو جی کہنا ہی پڑ گیا کیونکہ 3ہفتے قبل ہر خرابی مشرف کے کھاتے میں ڈال کر مارشل لا ء کیخلاف سیاستدانوں کی بے بسی پر روپڑنے والا وہ رہنما اُس دن ایک اہم وزارت کا حلف اُٹھا کر ہنستے مسکراتے مشرف کو مسیحا اور مارشل لاء کو وقت کی اہم ضرورت قرار دے رہا تھا ۔مجھے اچھی طرح یا د کہ اُس دن گھٹنے چھو کر جب میں نے ان سے پوچھا ’’ گُرو جی ہماری جمہوریت فیل نہیں ہوگئی ‘‘تو چند لمحے سوچ کر بولے ’’چیلا جی جمہوریت نہیں ہم فیل ہو گئے ،یہاں کے تو ڈکٹیٹر ز بھی دو نمبر ہی نکلے لیکن سیاستدانوں نے تو حدہی کر دی،جمہوریت کبھی کسی امتحان میں پاس بھی ہوگی؟ میرے اس سوال پر وہ بولے ’’ جب سیاستدانوں کی نیتیں ٹھیک ہو جائیں گی ، جب پارٹیاں فیملی نہیں سیاسی پارٹیاں بن جائیں گی اور جب سیاست سیاست سے نکلے گی تب پھر جمہوریت کسی امتحان میں فیل نہیں ہوگی‘‘۔
مجھے گُرو جی کی دُکھتی رگوں کا علم تھا اور میں اکثر یہ رگیں دباتا رہتا ، جیسے میرے اس سوال پر وہ ہمیشہ زچ ہو جاتے کہ ’’ اگر قومی اتحاد کی طر ف سے آپ ہی کچھ کر دیتے تو ضیاء الحق کا مارشل لاء نہ بھی ٹلتا کم ازکم بھٹو ضرور بچ جاتا ، میری اس بات پر بھی وہ جھنجھلاجاتے کہ ’’ کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بننا اور پھر سرکار کے خرچے پر لاتعداد دورے ، اندر سے تو آپ بھی اقتدار پسند ہی نکلے ‘‘ اور میرا یہ کہنا بھی انہیں اچھا نہ لگتا کہ ’’ یہ کیسی جمہوریت کہ جسے آئے روز آپکا ٹانگہ Rescueکرے ‘‘۔ گُرو جی کے ساتھ بیٹھنا مطلب وقت کوپہئے لگ جانا ، وہ ایک کہانی شروع کرتے اور پھر اس کہانی سے کہانیاں نکلتی رہتیں ، اگریہ لکھنے بیٹھوں تو کتاب بن جائے ، ان کی بچپن کی محرومیاں ،لڑکپن کے خواب اور مجلسِ احرار کے پلیٹ فارم سے قیامِ پاکستان کی تحریک میں حصہ لینا ، انہیں نواب آف کالا باغ نے کیا دھمکی دی ،ایوب خان نے کیا پیغام بھجوایا ، فاطمہ جناح کی آنکھوں میں آنسو کیوں آئے ، وہ ضیاء الحق کو بیٹھا چھوڑ کر کمرے سے کیوں نکل گئے ، بے نظیر بھٹو نے انکے پاؤں کیوں پکڑے ،نو از شریف انہیں روزانہ فون کیوںکرتے ، وہ4 افراد کس نے بھجوائے کہ جنہوں نے رات 12بجے سے 4بجے تک بندوق کی نوک پر انہیں یر غمال بنائے رکھا اور پھر وہ حسینہ کون تھی کہ جسے یہ دل ہی دے بیٹھے ۔
گو کہ گُرو جی کی شخصیت ایسی کہ اسے بھلانا مشکل اور گو کہ نان چھولوں ،سگار ،حُقے اور چائے سے واکوں اور ہر قسم کی ٹاکوں تک ان کی یاد کبھی پیچھا ہی نہ چھوڑے مگر خراب نیتوں ، فیملی پارٹیوں اور سیاست میں پھنسی سیاست دیکھ کر، قوم کے ہر دوسرے چہرے پر بے بسی ، ہر دوسری آنکھ میںمحرومی ، ہر دوسرے خالی پیٹ پر نظر مار کرمطلب وڈّے سائیں کو بھُلا چکے اپنے وڈّوں کا سوچ کر مجھے آجکل گُر وجی اوروڈّے سائیں کے خوف میں جکڑی گُرو جی کی وہ شام بہت یاد آئے کہ جب مہمانوں کو گیٹ تک چھوڑکر وہ قدرے دیر سے آنسو پونچھتے کمرے میں داخل ہوئے تو انہیں یوںدیکھ کر ویسے تو ہم سب ہی پریشان ہوگئے مگر ان کا ایک بے تکلف دوست گھبرا کر اُٹھا اور ان کے دونوں ہاتھ تھا م کر بولا’’ سائیں کیہہ تھیا‘‘ وہ کچھ نہیں بولے، چپ چاپ صوفے پر بیٹھے اور پھر چند لمحے ہمیں خالی خالی نظروں سے دیکھ کر کمزورسی آواز میںکہا ’’ باہر گیٹ پر ایک ضعیف بی بی بیٹھی تھی، اس نے کچھ کھانے کو مانگا مگر میں اسے نظر انداز کر کے مہمانوں کو رخصت کرنے میں لگا رہااور پھر جب سب مہمانوں کو رخصت کرکے میں واپسی کیلئے مڑا تو یہ بوڑھی عجیب سے لہجے میں بولی ’’ وے وڈّیا صاحبا توں وڈّے سائیں نوں اپنے رَجے پیٹ تے میری بھُک دا کی حساب دیویں گا‘‘۔ نوابزادہ صاحب بمشکل اتنا ہی بتا پائے کیونکہ اب ان کے آنسو تیز اور جسم کانپ رہا تھا ، مجھے اچھی طرح یاد کہ صوفے سے ٹیک لگا کر وقفے وقفے سے پانی پیتے پھر وہ اگلے 2گھنٹے بس یہی دہراتے رہے ’’جے وڈّے سائیں نیں پُچھ لیا تے فیر ۔۔!
تازہ ترین