• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

کوویڈ 19کے بعد کی دنیا میں عالمی اور قومی سطح پر اقتصادی پیش رفت منفی رہی۔ ابھی حالات بہتری کی جانب بڑھے ہی تھے کہ سندھ اور بلوچستان میں غیر معمولی طوفانی بارشوں اور سیلاب نے تباہی مچا دی۔اس دوران اوسط بارش 1100 ملی میٹر تھی جو معمول سے پانچ گنازیاد ہ ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کے مطابق بلوچستان سے آنے والے سیلاب کا حجم 120 ملین ایکڑ فٹ تھا۔یعنی سیلابی پانی کئی ایک تربیلا ڈیموں کی گنجائش کے برابر تھا۔ ناکارہ یاناکافی نکاسی آب کے نظام نے لوگوں کی مشکلات بڑھا دیں۔ دریا کے بائیں اور دائیں دونوں کناروں پر بڑاعلاقہ اب بھی زیر آب ہے۔ ان علاقوں میں گندم کی آئندہ کاشت مشکل دکھائی دیتی ہے۔ سیلاب نے 33 ملین سے زیادہ آبادی کو تباہ اور بے گھر کر دیا ، ان کے گھر ڈوب گئے ، مویشی اور کاشت کی ہوئی فصلیں تباہ ہو گئیں، انفراسٹرکچر اور آبپاشی کے نیٹ ورک کو نقصان پہنچا ، 1100 سے زیادہ افراد جاں بحق ہوئے ۔اس طرح معیشت کو 30بلین ڈالریا GDP کے دس فیصد کے مساوی نقصان پہنچاہے۔ کھیتوں کی پیداوار کو منڈیوں تک پہنچانے والا انفراسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے۔اگلی فصلوں کی بوائی کیلئے درکار بیج بہہ گئے ہیں۔ یہ نقصانات دائیں کنارے کے اضلاع میں نسبتاً زیادہ بہت ہیں۔ یہ تباہی گواہی دے رہی ہے کہ گلوبل وارمنگ نے اپنے سفاک اثرات مرتب کرنا شروع کردئیے ہیں۔

ورلڈ بینک کا تازہ ترین تخمینہ ہے کہ کل نقصانات 14.9 بلین امریکی ڈالر سے تجاوز کر جائیں گے۔ کل اقتصادی نقصانات تقریباً 15.2 بلین امریکی ڈالر تک ہوں گے۔ بحالی اور تعمیر نو کیلئے کم از کم 16.3بلین ڈالر درکار ہیں۔ اس رقم میں ابھی وہ سرمایہ کاری شامل نہیں جو متاثرہ علاقے میں نئے مواقع پیدا کرنے، پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے بچانے اور مستقبل میں ایسے موسمیاتی جھٹکوں سے بچنے کیلئے درکار ہے۔ ہائوسنگ، زراعت اور لائیو اسٹاک کو بالترتیب 5.6 ، 3.7 اور 3.3 بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ سندھ سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے جہاں نقصانات،کل نقصان کا تقریباً 70فیصد ہیں، اس کے بعد بلوچستان، خیبرپختونخوا اور پنجاب ہیں۔

کئی علاقے ابھی تک زیر آب ہیں جہاں تعفن زدہ پانی سے پیداہونے والی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ تقریباً 80لاکھ سے زیادہ بے گھر افراد کو صحت کے بحران کا سامنا ہے۔ پی ڈی این اے ہیومن امپیکٹ اسیسمنٹ اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ سندھ میں غربت کی شرح 8.7 سے بڑھ کر 9.7 فیصدہو سکتی ہے، جو ممکنہ طور پر 4سے 5ملین مزید لوگوں کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دے گی۔ سندھ میں کثیر جہتی غربت ممکنہ طور پر 10.2 فیصد تک بڑھ سکتی ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مزید 1.2ملین گھرانے غربت کاشکارہوسکتے ہیں۔سیلابوں سے ہونے والی تباہی مالی سال2022 میں جی ڈی پی کے 2.2 فیصد تک نقصان پہنچا سکتی ہے ۔ زرعی شعبہ جی ڈی پی کے 0.9فیصد تک سکڑ سکتا ہے۔ زراعت میں ہونے والی تباہی اور نقصانات کے اثرات صنعت، بیرونی تجارت اور خدمات کے شعبوں پر پڑیں گے۔ متاثرہ اضلاع میں قومی اوسط کے مقابلے میں زراعت میں روزگار کا تناسب زیادہ ہے۔ گویایہاں ملازمت کے نقصانات نسبتاً زیادہ ہوں گے۔ سندھ میں 8.2 ملین لوگ غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں اور ان کی تعداد میں مزید 2 سے 3 ملین تک اضافے کا خدشہ ہے۔ اگر گندم کی فصل کی بوائی کے اہداف پورے نہ ہوپائے تو خوراک کی دست یابی کے امکانات مزید کم ہوجائیں گے۔

رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ سندھ کی دیہی آبادی غیر متناسب بوجھ تلے دب چکی ہے۔ سندھ کی تباہی اور نقصانات کا تخمینہ 20.4 بلین ڈالر لگایا گیا ہے جبکہ کل قومی نقصان کا تخمینہ 30.1 بلین ڈالر ہے۔ سندھ کی بحالی اور تعمیر نو کے لئے 7.9 بلین ڈالر درکار ہیں۔ غربت کی شرح اور کثیر جہتی غربت کی شرح جو کہ وبائی امراض اور سیلاب سے پہلے بھی کافی زیادہ تھی ، مزید بڑھ گئی ہے۔ صوبائی سطح پر پیداوار کے نقصانات ، خاص طور پر جن کا تعلق زراعت اور اس سے جڑی ہوئی سرگرمیوں سے ہےاوسط قومی نقصانات سے تجاوز کر سکتے ہیں۔ اس طرح یہ بحران انسانی زندگی اور معاش پر گہرے اور دیرپا اثرات مرتب کرتاہے۔ گھریلو بہبود کم از کم چار طریقوں سے متاثر ہوگی: (1) فصل کی تباہی، مویشیوں کی ہلاکت یا کاروبار کے غیر فعال ہونے کی وجہ سے گھریلو آمدنی اور روزگار کا نقصان (2) اثاثوں کا نقصان، بشمول مکانات، مویشی، پیداواری سامان، اور گھریلو اشیا (3) غذائی اجناس کے ضائع ہونے اور ناقص فصلوں کی وجہ سے خوراک کی کمی کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ، اور (4) انسانی سرمائے کا نقصان، بیماری کے پھیلنے اور خوراک کی قلت کے اہم خطرے کے پیش نظر، اور اسکولوں کی طویل بندش اور حاضری میں کمی۔ ان کے اثرات پہلے سے ہی کمزور اور پسماندہ طبقوں کے لئے تباہ کن ہوں گے۔ سندھ کی دیہی خواتین، شہری مردوں کے مقابلے میں شدید معاشی اور سماجی پسماندگی کا شکار ہیں، خاص طور پر زراعت اور مویشیوں سے وابستہ خواتین کے روزی کمانے کے ذرائع تباہ ہوچکے ہیں۔ سیلاب سے متاثر ہونے والوں میں سے 49 فیصد خواتین تھیں جو کھیتی باڑی، مویشی پالنے، فصلوں کی کٹائی اور ایندھن کی لکڑی جمع کرنے سے وابستہ ہیں۔ جب تباہ کن واقعات رونماہوتے ہیں تو خواتین کاروزگار اور ان کی آمدنی کے ذرائع بہت زیادہ متاثرہوتے ہیں کیوںکہ اُنھیں اپنے روزگار کی بحالی کےلئے متبادل ذرائع میسر نہیں آتے۔دیہی علاقوں میں مہنگائی ، جو جنوری 2022ء میں 4.8 فیصد تھی، جولائی میں 38 فیصد تک پہنچ گئی۔ اس نے خواتین کو بے حد متاثر کیا کیوںکہ ان کی جمع شدہ خوراک ضائع ہوچکی ہے اور اُنھیں اشیائے خورونوش بازار سے خریدنا پڑتی ہیں۔(جاری ہے)

تازہ ترین