• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروین رحمٰن قتل کیس: ملزمان کی سزائیں کالعدم قرار

پروین رحمٰن قتل کیس میں ملزمان کی سزاؤں کے خلاف اپیلیں منظور کر لی گئیں۔

سندھ ہائی کورٹ نے پروین رحمٰن قتل کیس میں سنائی گئی سزاؤں کو کالعدم قرار دے دیا۔

سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ پروین رحمٰن قتل کیس کے ملزمان دوسرے کیسز میں مطلوب نہیں تو رہا کر دیا جائے۔

ملزمان میں رحیم سواتی، امجد حسین، ایاز سواتی اور احمد حسین شامل ہیں۔

 پروین رحمٰن قتل کیس میں ملزمان کی اپیلوں کا تحریری فیصلہ جاری

سندھ ہائی کورٹ نے پروین رحمٰن قتل کیس میں ملزمان کی اپیلوں کا تحریری فیصلہ جاری کردیا جو 38 صفحات پر مشتمل ہے۔

عدالت نے تحریری فیصلے میں کہا کہ اس کیس کا ایک اہم پہلو مقتولہ کا 2011 میں ایک صحافی کو دیا گیا انٹرویو ہے، آیا پروین رحمٰن کا وہ انٹرویو قابل قبول ہے یا نہیں، انٹرویو 2011 میں لیا گیا تھا جو ان کے قتل کے بعد آن ایئر کیا گیا، ملزمان کے وکلاء کا مؤقف ہے قانونی طور پر اس انٹرویو کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ملزمان کے وکلاء کے مطابق مقتولہ کے انٹرویو پر جرح کا موقع نہیں ملا، ملزمان کے وکلاء کا کہنا ہے کہ مقتولہ نے اپنا بیان کسی عدالت کے سامنے ریکارڈ نہیں کرایا تھا، عدالت ملزمان کے وکلاء کا مؤقف تسلیم کرتی ہے کہ انٹرویو قابل قبولیت والا نہیں ہے۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ہو سکتا ہے مقتولہ نے انٹرویو کراچی کی امن و امان کی صورتحال کو مدنظر رکھ کر دیا گیا ہو، جے آئی ٹی رکن بابر بخت نے بھی کہا کہ مقتولہ نے انٹرویو میں سیاسی جماعتوں پر عمومی نوعیت کے الزام لگائے، جے آئی ٹی رکن نے کہا کہ جو ملزمان کیس کا سامنا کررہے ہیں ان میں سے کسی پر مخصوص الزام نہیں، پراسیکیوشن نے یہ بھی ثابت نہیں کیا ملزم رحیم سواتی کا کس سیاسی جماعت سے تعلق ہے، ملزمان کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ جائے وقوعہ سے ملنے والے گولیوں کے خول پولیس مقابلے میں مارے جانے والے ملزم قاری بلال کے پستول سے ملتے ہیں، پروین رحمٰن کو جس ہتھیار سے قتل کیا گیا اس کے خول ملزمان کے ہتھیار سے میچ نہیں ہوئے، ملزمان کی گرفتاری کے وقت سے کوئی ایسا ہتھیار بھی برآمد نہیں کیا گیا ہے، ملزمان کا قاری بلال سے کوئی تعلق بھی ثابت نہیں کیا جا سکا۔

عدالت نے کہا کہ پراسیکیوشن نے اس حوالے سے مزید کوئی تحقیقات نہیں کیں، پروین رحمٰن قتل کیس میں بنائی گئی جے آئی ٹی کی حیثیت کیس کے چالان سے زیادہ کی نہیں ہے، جے آئی ٹی رپورٹ میں جو چیزیں بتائی گئیں وہ پہلے ہی منظر عام پر آچکی تھیں، جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر عدالت کسی ملزم کی سزا یا بے گناہی کا فیصلہ نہیں کر سکتی، مفرور ملزمان کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی تک مکمل نہیں کی گئی ہے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ملزمان پر قتل میں معاونت کے الزامات بھی ثابت نہیں ہوتے، کیس میں شک کا فائدہ ملزمان کو دیا جاتا ہے، کیس میں ایک نہیں کئی شکوک وشبہات پائے گئے ہیں، ٹرائل کورٹ کی جانب سے ملزمان کو دی گئی سزا کالعدم قرار دی جاتی ہے، ملزمان اگر کسی اور کیس میں مطلوب نہیں ہیں تو رہا کیا جائے۔

واضح رہے کہ انسداد دہشتگردی عدالت نے دسمبر 2021 میں ملزمان کو2،2 بار عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

پروین رحمٰن کو کب قتل کیا گیا؟

واضح رہے کہ اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمٰن کو 2013ء میں کراچی کے علاقے منگھو پیر میں موٹر سائیکل سوار مسلح افراد نے اس وقت فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا جب وہ دفتر سے اپنے گھر واپس جا رہی تھیں۔

24 اپریل 2018ء کو ڈائریکٹر اورنگی پائلٹ پروجیکٹ اور سماجی کارکن پروین رحمٰن کے قتل کی تحقیقات کے لیے قائم کی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی حتمی تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی۔

قومی خبریں سے مزید