چینی کے کاروبار میں ناجائز طور پر بھاری منافع کمانے کے اسکینڈل ملک میں پچھلے دور حکومت سمیت بارہارونما ہوتے رہے ہیں۔سابقہ دور میں اس پر تحقیقاتی کمیشن بھی بنا یا گیاتھا تاہم ذمے داروں کے خلاف عملاً کوئی کارروائی سامنے نہیں آئی جبکہ اس سے پہلے بھی اس معاملے میں کم وبیش ایساہی ہوتا رہا جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سیاستدانوں سمیت ہمارے مقتدر طبقات اس انتہائی منافع بخش کاروبار میں بڑے پیمانے پر شامل ہیں ۔تحریک انصاف کی حکومت میں چینی کی مہنگائی کا سبب یہ رہا کہ ملکی ضروریات کا لحاظ کیے بغیر پہلے بڑی مقدار میں چینی برآمد کردی گئی اور جب ملک میں قلت ہوئی تو بہت مہنگے نرخوں پر درآمد کرلی گئی۔ اس کے نتیجے میں پچاس پچپن روپے فی کلو بآسانی دستیاب چینی کے نرخ سوا سو روپے تک جاپہنچے اور چینی کی فراہمی معمول پر آجانے کے بعد بھی نوے پچانوے روپے فی کلو سے کم نہیں ہوئے۔موجودہ دور میں ایک بار پھر چینی کی برآمد کا سوال زیر بحث ہے۔ مل مالکان کا مطالبہ ہے کہ ملکی طلب سے زیادہ چینی برآمد کرنے کی اجازت دی جائے جو ان کے مطابق دس لاکھ ٹن تک ہے جبکہ حکومت اس بارے میں سوچ بچار میں مصروف ہے‘ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم کی ہدایت پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے شوگرملز مالکان کااجلاس طلب کر لیا ہے جس میں چینی کی برآمد اور دستیابی سے متعلق تجاویز پر غور کیا جائے گا ۔ مل مالکان سے یقین دہانی حاصل کی جائے گی کہ برآمدسے ملک میں چینی کی قلت اور قیمتوں میں اضافہ نہ ہو لیکن شوگر ملز ایسوسی ایشن پنجاب کے صدر نے چینی کی برآمد سے پہلے ہی مطالبہ کردیا ہے کہ سرکاری قیمت پچاسی روپے سے بڑھا کر 110 روپے فی کلو مقرر کی جائے کیونکہ گنے کی امدادی قیمت بڑھ گئی ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دس لاکھ ٹن برآمد کے بعد مقامی قیمت کہاں جا پہنچے گی۔ لہٰذا حکومت کو مل مالکان کے بجائے عوام کے مفاد کو فوقیت دینا اور چینی کے مزید مہنگا نہ ہونے کو یقینی بنانا چاہیے۔