سپریم کورٹ آف پاکستان نے نااہلی کیس کی سماعت کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر فیصل واؤڈا کو کل صبح 11 بجے طلب کر لیا۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بینچ نے فیصل واؤڈا کے خلاف نااہلی کیس کی سماعت کی۔
عدالتِ عظمیٰ نے فیصل واؤڈا کو امریکی شہریت ترک کرنے کا سرٹیفکیٹ ساتھ لانے کا حکم بھی دیا۔
سپریم کورٹ نے فیصل واؤڈا کو 2 آپشن دیے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ فیصل واؤڈا اپنی غلطی تسلیم کریں اور 63 (1) سی کے تحت نااہل ہو جائیں، بصورتِ دیگر عدالت 62 (1) ایف کے تحت کیس میں پیش رفت کرے گی، عدالت کے سامنے فیصل واؤڈا کی تاحیات نااہلی کے لیے کافی مواد موجود ہے۔
عدالتِ عظمیٰ نے کہا کہ فیصل واؤڈا سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہو کر کہیں کہ انہوں نے دہری شہریت کی تاریخ بدلی، فیصل واؤڈا مان لیتے ہیں کہ جھوٹا بیانِ حلفی جمع کرایا ہے تو انہیں ایک مدت کے لیے ڈس کوالیفائی کیا جائے گا، اگر فیصل واؤڈا نہیں مانتے تو وہ تاحیات نا اہل ہوں گے۔
فیصل واؤڈا کے وکیل وسیم سجاد نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن قانون کی عدالت نہیں ہے، الیکشن کمیشن کسی کو تاحیات نااہل کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے سامنے مواد ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ فیصل واؤڈا نے غلط بیانِ حلفی دیا۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے پاس تو تاحیات نااہلی کے ڈکلیئریشن کا اختیار ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کیوں اپنے سامنے موجود شواہد سے تاحیات نااہل نہیں کر سکتی؟ فیصل واؤڈا نے ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے کئی جھوٹ بولے، انہوں نے بیانِ حلفی نوکری کے لیے نہیں انتخابات کے لیے جمع کرایا تھا، انتخابات لڑنے کے لیے صادق و امین ہونا شرط ہے، سیاست میں غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی، مستقبل کے قانون سازوں کو جھوٹے حلف نامے جمع کرانے کی اجازت نہیں ہو سکتی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فیصل واؤڈا نے غلط بیانِ حلفی کو تسلیم کرنے کے بجائے ہر فورم پر لڑنے کو فوقیت دی۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ فیصل واؤڈا کے بیانِ حلفی کے مطابق پبلک نے ان کو ووٹ دیے اور وہ جھوٹے نکلے۔
وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ فیصل واؤڈا کی نیت امریکی شہریت چھوڑنے کی ہی تھی۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ پبلک انتظار نہیں کرتی کہ فیصل واؤڈا کی نیت ٹھیک تھی یا غلط۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے کیس کی سماعت کل (25 نومبر) کی صبح 11 بجے تک ملتوی کر دی۔