• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یچ چوراہے پر ایک عورت کی لاش پڑی تھی، میں دوپٹا سنبھالتی باہر آگے بڑھی، مردوں کا ایک جمِ غفیر تھا، کوشش کرکے ہجوم میں جھانکا تو واقعی ایک عورت کی لاش پڑی تھی، لہو میں لتھڑی، خاک آلودہ، بکھرے بال، پھٹے کپڑے، تار تار چادر، زخموں میں چھلنی مجروح ، گھائل، جھلسی ہوئی۔

’’کیا ہوا ہے اسے؟ کون ہے یہ؟ شاید ایکسیڈنٹ ہوا ہے، ایدھی والوں کو بلاؤ‘‘۔ سارے مرد صرف بول رہے تھے، کوئی آگے نہیں بڑھا۔ میں تیزی سے آگے بڑھی، لاشں دیکھ کر میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ کتنا شناسا چہرہ تھا، اپنا اپنا سا، جیسے میرا چہرہ، ایک آواز سماعت سے ٹکرائی، لاوارث لگتی ہے، کوئی ہے والی وارث۔ ہجوم میں سے ایک اور آواز آئی، پھر خاموشی چھاگئی…

میں اپنی پوری طاقت جمع کرکے چیخ پڑی، میں ہوں، ہاں میں ہوں اس کی وارث، اشرافیہ کو چھوڑ کر اس ملک کی ساری عورتیں ہیں اس کی وارث۔

تم ہواس کی وارث؟ ایک آواز آئی

تم وارث ہو تو بتائو کیا ہوا ہے اس کو ؟ کیا ہوا ہے اسے؟

میں پھرچیخ پڑی۔ ظالمو! بے حسوں، دیکھتے نہیں اس پر کتے چھوڑے گئے ہیں۔ اسے زندہ دفن کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسے سڑکوں پر گھسیٹا گیا ہے۔ اسے جتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس پر گھریلو تشدد کیا گیا ہے۔ اس پر تیزاب پھینکا گیا ہے۔ اس پر مٹی کا تیل ڈال کر جلایا گیا ہے۔ اسے صرف جسمانی نہیں ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ سگ گزیدہ ہے، نہیں، بل کہ یہ مرد گزیدہ ہے۔ میرے آنسو بہہ رہے تھے اور میں چیخ رہی تھی کہ اچانک میں نے دیکھا سارا ہجوم چھٹ گیا، سارے مرد وہاں سےچلےگے تھے۔ شاید حقیقت کا سامنا اور سچ کا سننا بہت مشکل تھا۔

میں اس عورت کی طرف بڑھی، اسے چھوا تو محسوس کیا کہ وہ زندہ ہے، پر زندہ کہاں، ہاں زندہ لاش ضرور ہے، رُک رُک کر اور آہستہ آہستہ سانس لے رہی ہے، میں نے اس کا سر سہلاتے ہوئے اسے محبت سے پکارا۔ اسی لمحے اس نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں، مجھے ایک نظر دیکھا۔ اس ایک نظر میں کیا کچھ نہ تھا، بے بسی، لاچاری ، غصہ ، فریاد، شکایت اور گلہ، مجھے یوں لگا یہ نظر صرف نظر نہیں ہے، مظلوم کی آہ ہے، جو عرش کو بھی ہلا دیتی ہے۔ 

جو تیرکی طرح دل میں پیوست ہو جاتی ہے۔ اس نے دوبارہ آنکھیں بند کرلیں۔ میں نے اسے جھنجھوڑا۔ ’’سنو ! تمہیں، تمہارے بچوں کا واسطہ آنکھیں کھولو، ہوش میں آئو‘‘۔ بچوں کا نام سن کر واقعی اس کے جسم میں جنبش سی ہوئی، جیسےایک لمحے کو زندگی کی لہر اُٹھی ہو،میں نے اسے اُٹھانے کی کوشش کی، مگر وہ ہوش میں کہاں تھی۔ رات بھی ہونے لگی تھی۔

میں آواز دینے لگی۔ ’’کوئی ہے، جو میری مدد کرے‘‘۔ ایک جانب سے ماضی بیگم اور دوسری جانب سے مستقبل بی بی آگئیں۔ ماضی بیگم تو اسے دیکھتے ہی سر پیٹ کر بین کرنے لگیں، میں نے مستقبل بی بی سے کہا : ’’میری مدد کرو،یہ سامنے میرا  گھر ہے، اسے میرے گھر تک پہنچا دو ‘‘۔ اس نے روشن اور چمک دار آنکھوں سے مجھے دیکھا اور فوراً مدد کے لئے تیار ہوگئی۔ ہم دونوں اسے گھر لے آئے اس کے زخموں کو صاف کرکے ہم دردی کا مرہم لگایا۔ اسے محبت کے شربت کا ایک پیالا پلایا، جو اس کے لئے آبِ حیات ثابت ہوا اور چند منٹ بعد وہ اُٹھ بیٹھی۔

میں نے کہا: ’’میں تمہاری مدد کرنا چاہتی ہوں۔ تمہارا علاج کرائوں گی، تمہاری قانونی مدد بھی کروں گی، میں اپنی این جی او کی طرف سے تمہارے حق میں ریلی نکالوں گی، احتجاج کروں گی، تمہیں انصاف اورتمہارا حق دلوائوں گی‘‘۔

وہ تکلیف دہ زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ بولی: ’’مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں، میری ہر تکلیف، ہر درد اور ہر اذیت کا مداوا تو محبت ہے، صرف محبت، رہی بات حق کی،وہ تو مجھے آج سے چودہ سو سال پہلے میرے رسول پاکؐ نے دے دیئے۔ انصاف تواللہ نے میرے ساتھ کیا،جو مجھے ستر مائوں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے، وہ مجھے تکلیف کیسے دے سکتا ہے۔ اس نے تو مجھے اشرف المخلوقات بنایا، بلکہ اس نے تو مجھے دنیا میں اپنی تخلیق پیدا کرنے کا ذریعہ بناکر مزید محترم اور معتبر کردیا ، سوچنے دو، مجھے سوچنے دو، غلطی کہاں ہے؟ کہاں پر ہوئی ہے؟ 

مجھے سوچنےدو، مجھے آج اپنا تجزیہ کرنے دو‘‘۔ وہ خود کلامی کرنے لگی۔ ’’ خدائے بزرگ و برتر نے مجھے حسن و جمال ، شعور ، محبت سے مالا مال کرکے اس دنیا میں بھیجا، تاکہ میں دنیا کی خوب صورتی میں اضافہ کرسکوں، مجھے بیٹی بناکر محبت، معصومیت اور اطاعت کا مجسم بنا دیا۔ بہن بناکر محبت ، ہمدردی، پاکیزگی اورعزت کا استعارہ بنادیا، بیوی بناکر راحتِ دل و جان، غم گسار اور رفیق بنا دیا، ماں بناکر محبت، عظمت، شفقت اور تقدس عطا کرنے کے ساتھ ساتھ قدموں تلے جنت بھی رکھ دی اور مجھ پر اولاد کی ذمے داری ڈال دی، پر میں اپنے بچوں کی تربیت نہ کرسکی، جس کے لئے محبت، محنت ، مشقت اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے بجائے میں نے بچوں کو ماسی، آیا، کارٹون نیٹ ورک اور ٹیوٹر کے سپرد کردیا، خود گھر کو جنت بنانے کے بجائے کیبل اور اسٹار پلس سے گھر کو جہنم بنانے کے نسخے حاصل کئے،گھریلو سیاست اور سازشوں میں مصروف رہی۔ 

اپنی حقیقی اور باطن کی خوب صورتی کو بڑھانے کے بجائے ظاہری اور مصنوعی خوب صورتی کے چکر میں پڑ گئی۔ اور وہ حسن و جمال جو اللہ پاک کا قیمت تحفہ تھا، اس کی حفاظت کرنے کے بجائے فیشن کے نام پر عریانی اور فحاشی کو اپنا شیوہ بنالیا۔ پردے اور حجاب کو جہالت اور دقیانوسی سمجھ کر ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھا، دوپٹے سے نجات حاصل کی۔ وہ نظریں جن میں کبھی میرے لئے توقیر اور تعظیم تھی، حریصانہ نظروں میں بدل گئیں۔ ترقی پسند کہلانے کے شوق میں ، میں اپنی حدود سے تجاوز کرگئی۔ اپے بیٹوں اور بیٹیوں کی تربیت نہ کرسکی، صرف اپنے حقوق کی بات کرتی رہی اوراپنی ذمے داریوں کو بھول گئی۔

جب پہلی بار کسی عورت پر تشدد ہوا تو میں نے چپ سادھ لی۔ جب پہلی بار کسی لڑکی کو کم جہیز لانے پر جلایا گیا تو میں ساس اور نند کی شکل میں اس جرم میں شامل تھی۔ جب پہلی بار کسی عورت کو کاری کیا گیا تو میں نے مصلحت آمیز خاموشی اختیار کی۔ جب پہلی بار کسی عورت کو ونی کیا گیا تو میں لا تعلق اور خاموش رہی۔ جب پہلی بار کسی عورت کی قرآن سے شادی ہوئی تو میں نے صرفِ نظر کیا۔ جب پہلی بار کسی عورت کو بیچا گیا تو میں نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ 

جب پہلی بار کوئی عورت زیادتی کا شکار ہوئی تو میں خاموش رہی، جب کسی بچی کو تعلیم سے روکا گیا، تب بھی میں نے صدا بلند نہ کی، میری آنکھوں کے سامنے عورتیں صلیبوں پر لٹکتی رہیں اور میں خاموش رہی، حالاں کہ باقی تمام وقت میں بلا سوچے سمجھے بولتی رہی۔ دل ایک دو دن میں سیاہ نہیں ہوتے، یہ صدیوں کا تسلسل ہوتا ہے۔ کسی بھی گھر میں بیٹی پیدا ہونے پر میرے ہی ماتھے پر شکنیں پڑ جاتی تھیں اور بیٹے کی پیدائش پرنہال ہو جاتی تھی۔

میرا رب تو بڑا غفور الرحیم ہے، میری غلطیوں کو معافکر دے گا۔ ہر ظلم و زیادتی کو ہاتھ سے ، زبان سے روکنے کے بجائے دل تک میں برا نہ کہا۔ لکین میرا رب تو بڑا غفور الرحیم ہے، میری غلطیوں کو معاف کر دے گا۔ ‘‘۔

ساری رات وہ خود سے باتیں کرتی رہی حتیٰ کہ فجر کی اذان ہونے لگی۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر‘‘۔ بے شک میرا رب تو بڑا ہے، معاف کرنے والا ہے۔ تاریک رات کو روشن دن میں بدلنے والا رب، میری ضرور مدد کرے گا‘‘۔

وہ ایک عزم کے ساتھ اُھ کھڑی ہوئی۔ ’’راکھ کے ڈھیر میں چند چنگاریاں اب بھی موجود ہیں اور مردہ ضمیروں کے وسیع و عریض قبرستان کے اس پار یقیناً کوئی آبادی ہے، جس میں با اصول اور باوقار لوگ آباد ہیں۔ ہم سب عورتوں کو وہاں جانا ہوگا، کوئی نیا راستہ تراشنا ہوگا، کوئی نیا قافلہ ترتیب دینا ہوگا، ہمیں علم حاصل کرنا ہوگا، شعور آگہی ہی سے تبدیلی کا سورج طلوع ہوگا۔ جہالت، ظلم اور استحصال کے بادل چھٹ جائیں گے۔ ہمیں بصیرت اور بصارت حاصل کرنا ہوگی، تاکہ ہمارے اندر کی تیسری آنکھ کھل سکے۔ 

میں اپنے خوابوں میں زندہ نہیں رہوں گی، بلکہ اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے کے لئے جاگوں گی اور تمام عورتوں کو خوابِ غفلت سے جگائوں گی۔ اپنا محاسبہ کروں گی۔ اپنی غلطیاں دُہرانے کے بجائے ان سے سبق حاصل کروں گی، اپنی طاقت اور صلاحیتوں کو پہچانوں گی، تاکہ ایک نئی دنیا میں نئی صبح طلوع ہو، جہاں ساری عوررتیں روشن چہروں اور چمکتی آنکھوں کے ساتھ سر اُٹھا کر زندہ رہیں۔ کون ہے؟ کون ہے میرے ساتھ؟‘‘۔ وہ بولی میں نے مسکرا کر اس کا ہاتھ تھام لیا۔ ’’میں ہوں تمہارے ساتھ ‘‘۔ ’’کیا آپ بھی؟‘‘