سہیل وڑائچ
ماجد نظامی
وجیہہ اسلم، حافظ شیراز قریشی
حنا خان، عبد اللہ لیاقت
آزاد کشمیر بلدیاتی نظام کیا ہے؟
آزادجموں و کشمیر کا بلدیاتی نظام پاکستان کے دیگر صوبوں سے زیادہ مختلف نہیں۔ یہاں بھی بنیادی اکائی یونین کونسل اور وارڈجبکہ بنیادی بلدیاتی ادارے میونسپل کارپوریشن ،ضلع کونسل ،میونسپل کمیٹی اور ٹائون کمیٹی ہیں، جہاں سے اضلاع کا نظام چلایا جاتا ہے۔ آزاد کشمیر میں پہلے بلدیاتی انتخابات 1979ء دوسرے 1983ء تیسرے 1987ء اور چوتھے 1991ء میں ہوئے تھے۔
بعدازاں 31سال کے تعطل کے بعدحال ہی میں پانچویں لوکل گورنمنٹ الیکشن مرحلہ وار 27 نومبر کو منعقد ہوئے۔ اسی طرح اگلا مرحلہ 3 دسمبر اور آخری مرحلہ کے انتخابات دسمبر کو منعقد ہوں گے۔ پہلے مرحلے میں مظفر آباد ڈویژن یعنی مظفرآباد،نیلم اور جہلم ویلی، دوسرے میں پونچھ جبکہ آخری مرحلے میں میرپور ڈویژن میں انتخابی عمل وقوع پذیر ہوگا۔
1953ء میں آزادکشمیر میں "دیہات سدھار(Village Aid)"کے نام سے ایک پروگرام کا آغازکیا گیا جس میں ویلج کونسل قائم ہوئیں جن کے تحت بنیادی سہولیات کی فراہمی اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کی بنیاد رکھی گئی۔ بعد ازاں جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں بنیادی جمہوریتوں کا نظام متعارف کروا کر ضلع و یونین کونسلوں کے انتخابات کروائے گئے۔ 1978ء میں محکمہ لوکل گورنمنٹ و دیہی ترقی کے قیام کے بعد سے الیکشن کمیشن لوکل باڈیز کے تحت چار الیکشن کروائے گئے اور پھر ایک طویل تعطل کے بعدیہ الیکشن ہونے جارہے ہیں۔ آزاد کشمیر میں پہلی مرتبہ لوکل گورنمنٹ کے الیکشن چیف الیکشن کمشنر کے ادارہ کے ماتحت ہورہے ہیں۔ اس سے قبل چاروں بلدیاتی انتخاب الیکشن کمشنر لوکل باڈیز کے تحت ہوئے تھے۔
لوکل گورنمنٹ کے نظام کے تحت میونسپل کارپوریشن ، میونسپل کمیٹی ، ٹائون کمیٹی اور ضلع کونسل کے کامیاب امیدوار اپنے ووٹ کے ذریعے اپنا چیئرمین و میئر منتخب کریں گے۔ آزادکشمیر میں 10ضلع کونسل، 278 یونین کونسل،05 میونسپل کارپوریشن ،14 میونسپل کمیٹیز اور 12ٹاؤن کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔
مقامی حکومت کے اس نظام کے مطابق پورے آزادکشمیر سے ضلع کونسل کے 278 ممبران براہ راست منتخب ہوئے جبکہ 70 ممبران جن میں 35خواتین اور 35 نوجوان شامل ہیں ،بالواسطہ منتخب ہوسکیں گے۔ یوں آزاد کشمیر میں ضلع کونسل کے ممبران کی مجموعی تعداد 348 ہے جسے مرحلہ وار منتخب کیاجائے گا۔ اسی طرح پورے آزادکشمیر میں دیہی اور شہری علاقوں کے اندر 2616 وارڈز ممبران (2349 دیہی اور 263شہری) اور اس تناسب پربالواسطہ منتخب ہونے والے خواتین اور نوجوانوں کی تعداد 618 ہوگی۔ یوں 3234 ممبران منتخب ہوکر مقامی حکومتوں کا حصہ بن سکیں گے۔ بحیثیت مجموعی پورے آزاد کشمیر میں بشمول ضلع کونسل کے 3582(3234 ممبران وارڈز اور 348ضلع کونسل)ممبران منتخب کئے جائیں گے۔
نئی حد بندی کے لئے دیہی علاقوں میں وارڈ کی تشکیل کیلئے 1500 تا 2000کی آبادی رکھی گئی، ٹاؤن کمیٹی کیلئے 2000تا 3000، میونسپل کمیٹیز کے اندر 3000 تا 4000کی آبادی اور میونسپل کارپوریشن میں 3500تا 5000کی آبادی پر مشتمل وارڈز بنائے گئے ہیں۔ بلدیاتی انتخاب کیلئےووٹرز کی عمر 21سال مقرر تھی جوترمیم کر کے 18سال کی گئی ہے۔مقامی حکومتوں کے نظام کے مطابق آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات کیلئے لوکل کونسل کا دورانیہ چار سال رکھا گیا ہے۔
مظفر آباد ڈویژن میں کیا ہوا؟
آزاد جموں و کشمیر میں 31 سال کے بعد بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ بڑے چھوٹے اپ سیٹ کے بعد تکمیل کو پہنچا۔ بڑی سیاسی جماعتوں کے بڑے بڑے لیڈر اپنے حلقہ بھی نہیں بچا سکےاور اپ سیٹ کا شکار ہوئے۔ انتخابی نتائج کے مطابق پہلے مرحلےکی669 میں664 نشستوں کے سرکاری نتائج میں تحریک انصاف مجموعی طور پر پہلے نمبر پر رہی۔ اسی طرح پیپلزپارٹی دوسرے جبکہ مسلم لیگ نواز تیسر ے نمبر پر رہی۔
پیپلزپارٹی نے194نشستیں، تحریک انصاف 197، مسلم لیگ ن 127، مسلم کانفرنس22، جموں کشمیر پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور تحریک لبیک ایک، ایک جبکہ 121 آزاد امیدوار کامیاب قرار پائے۔ انتخابی نتائج میں حیران کن بات یہ ہے کہ آزاد کشمیر کی مقامی سیاسی جماعتوں میں کوئی بھی پارٹی خاطر خواہ کامیابی نہیں حاصل کرسکی۔
میونسپل کارپوریشن کے نتائج کا جائزہ لیاجائے تو تحریک انصاف کویہاں بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ کل 36 سیٹوں میں سے مسلم لیگ نواز 12، تحریک انصاف 8، پیپلزپارٹی 7، مسلم کانفرنس 2اور 7 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ تین اضلاع کی ضلع کونسلز کی 74 نشستوں میں تحریک انصاف 32 نشستیں لیکر پہلے نمر پر، پیپلزپارٹی 22 نشستوں کیساتھ دوسرے ،ن لیگ 11 نشستوں کیساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔ مسلم کانفرنس نے تین ،جموں وکشمیر پیپلزپارٹی 1 اور 4آزاد امیدواروں نے میدان مارا۔ یونین کونسلز کی سطح پر پاکستان پیپلزپارٹی پہلے، تحریک انصاف دوسرے اورآزاد امیدواروں کی تعداد تیسرے نمبر پر ہے۔
کون سے ایم ایل اے اپنے حلقہ کی یونین کونسلز ہارے ؟
بلدیاتی انتخابات کے حیران کن نتائج میں جہاں تحریک انصاف کو دھچکا لگا وہیں سابق حکمران جماعت ن لیگ کے مقامی عہدیداران کو بھی اپنے حمایت یافتہ امیدوارو ں کو شکست سے دوچار ہوتے دیکھنا پڑا۔ سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان اپنے اسمبلی حلقے کی دو ٹائون کمیٹیاں اور ضلع کونسل کی نشستیں جیتنے میں کامیاب رہے۔ مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کے صدر اور سابق سپیکر اسمبلی شاہ غلام قادر کےحمایت یا فتہ امیدواروں کو ان کی آبائی یونین کونسل میں شکست کا سامنا کرناپڑا۔اس کے علاوہ ان کے منتخب شدہ چیئرمین ضلع کونسل دو ٹائون کمیٹیوں میں بھی ایک سیٹ بھی نہ لے سکے۔
یوں یونین کونسل ٹائون کمیٹی شاردہ سے ن لیگ کا مکمل صفایا ہوگیا جو انکی پارٹی صدارتی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔وہ دو ٹائون کمیٹیوں میں ایک وارڈ بھی نہیں جیت سکے ۔پیپلزپارٹی ٹکٹ پر تین بار ممبر اسمبلی منتخب ہونے والے میاں عبدالوحید کی آبائی یونین کونسل سے انکے حمایت یافتہ امیدوار ان کے بھانجے کو تحریک انصاف کے امیدوارکے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونا پڑاجس کے بعد ضلع نیلم میں پیپلزپارٹی ڈسٹرکٹ کونسل کی صرف تین نشستیں اپنے نام کرسکی۔
اسی طرح آزاد کشمیر حکومت کے سینئر وزیر خواجہ فاروق احمدکے امیدوار اپنا وارڈ بھی اپنے نام نہ کرسکے اور میونسپل کارپوریشن کی میئرشپ اورضلع کونسل کی ایک نشست بھی نہ جیت سکے۔ دوسری جانب قائد حزب اختلاف پیپلزپارٹی کے چوہدری لطیف اکبر اپنے حلقہ انتخاب میں بھاری اکثریت سے جیتنے کے علاوہ چیئرمین ضلع کونسل مظفرآباد بننے کےلیے بھی مضبوط پوزیشن میں آگئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی سردار جاوید ایوب کوبھی اپنے حلقوںسے بلدیاتی نشستوں پر شکست کاسامنا کرنا پڑا۔
مستقبل کی حکمت عملی کیاہوسکتی ہے؟
میونسپل کارپوریشن کی میئرشپ کیلئے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اکثریتی پارٹی کے طور پر سامنے آئی ہیں جس میں وہ ممکنہ طور پر مربوط حکمت عملی کیساتھ کامیاب بھی ہو جائیں گی۔ اسی طرح ضلع کونسل مظفر آباد کی 41 نشستوں میں سے چیئرمین کیلئے 21 نشستیں حاصل کرنا لازمی ہے جبکہ پیپلز پارٹی 18 کے ساتھ پہلے نمبر پر اور ن لیگ محض تین نشستیں اپنے نام کرسکی۔ مقامی ذرائع کے مطابق ن لیگ کے حمایتی دو ممبران کھاوڑہ سے کامیاب ہوئے اور مسلم کانفرنس ضلع کونسل کی دو نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی۔
یوں اب تک متحدہ اپوزیشن کو 41میں سے 23 سیٹوں کی اکثریت حاصل ہے۔حکمران جماعت تحریک انصاف کو ہٹیاں بالا میں ضلع کونسل کی 18 میں سے 10 سیٹوں پر کامیابی ملی ہے وہ اس ضلع کونسل میں آسانی سے اپنا چیئرمین منتخب کر سکتی ہے۔ ضلع کونسل مظفر آباد کی دو ٹاؤن کمیٹیوں گڑھی دوپٹہ اور نصیر آباد میں پیپلز پارٹی پہلے نمبر پر ہے۔ پورے ڈویژن کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو مجموعی طور پر دو ضلع کونسلز کے علاوہ اکثریتی ٹاؤن کمیٹیاں اور سب سے بڑی میونسپل کارپوریشن میں متحدہ اپوزیشن کامیاب رہی۔
آزاد کشمیر بلدیاتی انتخابات 31 سال بعد منعقد ہوئے جس کا سہرا پاکستان تحریک انصاف اور وزیر اعظم سردار تنویر الیاس کے سر ہے۔ پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج کے بعد حکومت دوسرے اور تیسرے مرحلے میں اپنی جیت کی بھرپور کوشش کرے گی۔ تین دسمبر کو پونچھ ڈویژن میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس اور صدر آزاد جموں و کشمیر بیرسٹر سلطان محمود کیلئے بڑا امتحان ثابت ہوسکتا ہے۔
مقامی طور پر یہ بات زبان زد عام ہے کہ پہلے مرحلے کے بعد اگلے دونوں مراحل کیلئے ان دونوں پر اب بڑی ذمہ داری عائد ہوگئی ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ سردار تنویر الیاس کیلئے ایک بڑا چیلنج یہ بھی ہوگا کہ تحریک انصاف کے بیانیے کو عوام میں زندہ رکھیں اور گنتی کے اعتبار سے نہیں بلکہ بلدیاتی اداروں کی چیئرمین شپ اور میئر شپ تحریک انصاف کی جھولی میں ڈالیں۔ الیکشن رزلٹ کے بعد ممکنہ طور پر شکست کے اثرات اگلے مرحلے پر بھی مرتب ہونگے ۔ساتھ ہی ساتھ یہ توقع بھی کی جارہی ہے کہ مظفر آباد کی طرح پونچھ میں بھی انتخابات پرامن ہوں گے ۔