چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان پنجاب اور کے پی اسمبلی توڑنا چاہتے ہیں، موجودہ ملکی سیاسی صورتحال میں وزیر اعلیٰ کے اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیارات اور گورنر راج کے حوالے سے آئین کیا کہتا ہے قانونی ماہرین کی کیا رائے ہے۔
آئینی و قانونی ماہرین کے مطابق صوبائی اسمبلی اجلاس کے دوران تحریک عدم اعتماد داخل کرنے یا اعتماد کا ووٹ لینے پر کوئی آئینی قدغن نہیں ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کا کہنا ہے کہ ووٹ آف نو کانفیڈنس لانے کے لیے اسمبلی کا سیشن میں ہونا یا نہ ہونا، ایسی قدغن آئین میں نہیں اگر اسمبلی سیشن میں ہے تو بھی ووٹ آف نو کانفیڈنس موو کیا جا سکتا ہے، اور گورنر بھی وزیر اعلیٰ سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہہ سکتا ہے۔
آئینی اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے آئین کے آرٹیکل 112 کے تحت وزیر اعلیٰ صوبائی اسمبلی کی تحلیل کا اختیار رکھتا ہے۔
آئینی و قانونی ماہر طارق کھوکھر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صوبائی اسمبلی یا نیشنل اسمبلی فکسڈ ٹرم پارلیمنٹ نہیں ہے لہٰذا چیف منسٹر جب چاہے اسمبلی کو ڈیزولو کر سکتا ہے لیکن پارلیمانی جمہوریت میں ایتھکس ہیں اگر کسی کے کہنے پر اسمبلی ڈیزولو کر رہا ہے آئینی طور پر تو چارہ جوئی نہیں ہو سکتی لیکن وہ اپنے ووٹر کو جوابدہ ہوگا۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے صدر گورنر کی ایڈوائس پر یا نیشنل اسمبلی اور سینیٹ سے قرارداد منظور ہونے کی صورت میں آرٹیکل 234 کے تحت متعلقہ صوبے میں 6 ماہ تک ایمرجنسی عائد کر سکتا ہے۔
عامر رحمان کا کہنا ہے کہ جب دونوں ہاؤس ریزولوشن پاس کریں تو ایسی صورت میں صدر کے پاس ایمرجنسی نہ لگانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ہاں البتہ اگر گورنر کہتا ہے تو یہ صدر کی ڈس کریشن ہے وہ لگائے یا نہ لگائے لیکن اگر ایک دفعہ دونوں ہاؤس ریزولوشن ایمرجنسی کا پاس کریں تو صدر کے پاس اختیار نہیں کہ وہ ایمرجنسی کا نفاذ نہ کرےـ
آئینی ماہرین کے مطابق صوبے کے وزیر اعلیٰ کا اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار دو طرح کی آئینی صورتحال میں معطل ہو جاتا ہے۔
طارق کھوکھر کا کہنا ہے کہ دو طرح کی ریسٹرکشنز ہیں نمبر ون جب کسی وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد آجائے، دوسرا یہ کہ گورنر کی رپورٹ پر صدر پاکستان گورنر راج نافذ کر دے تو گورنر راج کے دوران چیف منسٹر کے اختیارات معطل ہو جاتے ہیں۔
تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کی جانب سے اسمبلیوں کی تحلیل یا استعفوں کے اعلان کے بعد آئینی و قانونی صورتحال پر حکومتی اتحادی سر جوڑ کر بیٹھے ہیں اور مختلف سیاسی و آئینی آپشنز پر غور جاری ہے۔