• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئی فوجی قیادت کیلئے سب سے بڑا چیلنج فوج کی عوام میں عزت کو بحال کرنا ہے ،جس کیلئے سیاست سے کنارہ کشی لازم ہے۔ 

جب فوج یا آئی ایس آئی سیاسی تنازعات کا حصہ بن جائے تو اُن کے بارے میں بھی سیاست ضرور ہوگی۔ کوئی ایک سیاسی جماعت اور اُس کے سپورٹرز اگر ان اداروں کے حق میں بات کریں گے تو کوئی دوسری سیاسی جماعت یا گروہ ان پر تنقید کرے گا۔

ویسے تو فوجی اسٹیبلشمنٹ گزشتہ کئی دہائیوں سے سیاست میں مداخلت کی وجہ سے ہدف تنقید بنی رہی لیکن جو کچھ ہم نے گزشتہ سات آٹھ مہینوں کے دوران دیکھا اور سنا اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ 

جس سیاسی رہنما (عمران خان) اور سیاسی جماعت کو اقتدار میں لانے کے لئےفوج نے پولیٹکل انجینئرنگ کے تمام ریکارڈ توڑے، اُس نے اپنی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی اُسی اسٹیبلشمنٹ پر الزامات کی بھرمار کر دی، سوشل میڈیا کے ذریعےاسٹیبلشمنٹ اور فوج کی اعلیٰ قیادت کے خلاف درجنوں ٹرینڈز بھی چلائے، اُنہیں غدار کہا، اُن پر مبینہ رجیم چینج کی امریکی سازش کو پاکستان میں کامیاب کروانے کا الزام دھرا، اُنہیں جانور کہا ، گالم گلوچ تک کی گئی۔

 سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی ریٹائرمنٹ سے چند دن پہلے کہا کہ فوج کے ادارے نے گزشتہ سال اپنے آپ کو سیاست سے الگ کرنے کا فیصلہ کر لیاتھا اور اس فیصلے پر سختی سے عمل ہوگا۔ 

جنگ میں آج شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اپنے پیش رو کے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ فوج سیاست سے دور رہے گی اور ساتھ ہی اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے ادارے کے وقار اور آئین کی بالادستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

 آرمی چیف کے عہدے میں توسیع کے حوالے سے قانون سازی کے معاملے پر انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ چاہے تو وہ اس قانون کو ختم کرنے کیلئے آزاد ہے کیونکہ قانون سازی فوج کا کام نہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ فوج کا کام وفاقی حکومت کے ساتھ معلومات شیئر کرنا اور اس کے احکامات ماننا ہے، نہ کہ اسے ڈکٹیشن دینا۔ نئے چیف کا یہ بیان نہایت خوش آئند ہے۔ اب اس بیان پر اُنہیں اپنے تین سالہ دور میں سختی سے کاربند رہنا ہوگا۔

پاک فوج اور آئی ایس آئی ملک کے دفاع اور سیکورٹی کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ ایسے اداروں کا اندرونی طور پر تنازعات اور خصوصاً سیاسی تنازعات سے پاک رہنا بہت ضروری ہے۔ ماضی میں فوج کے ڈنڈے اور آئی ایس آئی کو جس طرح گاہے گاہے سیاسی جوڑتوڑ، حکومتیں بنانےو گرانے اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کیلئے استعمال کیا گیا، اُسے اب پاکستان کی اُس تاریخ کا حصہ بن جانا چاہئے جسے بحیثیت قوم ہمیں اب کبھی نہیں دہرانا۔

ایک طرف اگر فوج اور آئی ایس آئی کو اپنے متنازعہ کردار سے پیچھے ہٹنا ہے تودوسری جانب یہ سیاستدانوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے سیاسی فیصلوں کیلئے نہ تو فوج اور آئی ایس آئی کی طرف دیکھیں اور نہ ہی اُن اداروں کو اپنی سیاست کے لئے استعمال کریں یعنی ایک طرف فوج کو سیاستدانوں کو اپنے ڈنڈے سے ہانکنے اور دوسری طرف سیاستدانوں کو فوج کے ڈنڈے سے ہانکے جانے کی تاریخ کو دفن کرنا ہوگا۔ 

ویسے ہمارے سیاستدانوں کے بیانات جو مرضی ہوں، ماضی قریب تک تقریباً تمام بڑی حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کی نظریں فوج پر ہی مرکوز رہیں کہ وہاں سیاست کے بارے میں کیا فیصلہ ہوتا ہے! ہماری سیاسی جماعتوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کا سلیقہ آنا چاہئے۔ اپنے سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر ملک کی بہتری کے لئے فیصلے کرنے چاہئیں بلکہ باہمی سیاسی تنازعات اور اختلافات پر بھی آپس میں مل بیٹھ کر گفتگو کریں، اس کیلئے پارلیمنٹ کے فورم کو استعمال کریں، گالی اور اختلاف برائے اختلاف کی بجائے دلیل اور اصول کی بنیاد پر سیاست کریں۔ 

سیاست دانوں کو حکومت میں آ کر آئین کے مطابق حکمرانی کرنے کا گر سیکھنا چاہئے تاکہ جو کچھ آئین میں لکھا ہے اس کے ثمرات عوام کو بھی ملیں اور جو خرابیاں ہمارے گورننس سسٹم میں موجود ہیں اُنہیں دور کیا جائے یہی بہتر طرزِحکمرانی کا بہترین نسخہ ہے ،جس پر سیاستدانوں کو عمل کرنا چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین