• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خان صاحب نے پنڈی جلسے میں لانگ مارچ تو ختم کرنے کا اعلان کر دیا لیکن ساتھ ہی ایک بڑا فیس سیونگ سرپرائز بھی دے گئے جس کی کسی کو توقع نہ تھی۔ بظاہر تو خان کی یہ سیاسی چال آخری ہی کہی جاسکتی ہے، کہ داؤ’’ لگ گیا توتیر نہیں تو تُکا ‘‘۔ بات اب یوٹرن سے دو ہاتھ آگے اباؤٹ ٹرن کی طرف بڑھتی نظر آرہی ہے کہ خان صاحب گزشتہ چھ ماہ کی مہم جوئی میں جس بُری طرح ناکام ہوئے ان کے پاس اب اور کوئی آپشن بھی نہیں بچا تھا کہ آئندہ انتخابات تک وہ کوئی نیا بیانیہ گھڑ یں اور اپنے حامیوں کے جوش و جذبے کو کنٹرول میں رکھ کر بیلٹ بکس کے حتمی نتائج آنے تک قائم و دائم رکھ سکیں۔سو انہوں نے وہی کیا جو وہ کرسکتے تھے۔ اس بارے میں کوئی دو آراءنہیں کہ خان آخری گیند تک لڑنے کی ہمت اور حوصلہ رکھتا ہے۔ خان سمیت کوئی بھی لیڈر ایسی مقبولیت کبھی کھونا نہیں چاہے گا ،سو چورن بیچنے کے لئے ہر وقت کوئی نہ کوئی تڑکا لگانا تو پڑتا ہے کہ اپنے ووٹرزاور سپوٹرز کے جذبات کو گرمائے رکھنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ انہوں نے وہی فیصلہ کیا جو انہیں بہت پہلے کرلینا چاہئے تھا کہ جب اتحادی حکومت بھی انہیں سمجھا رہی تھی کہ خان صاحب نئے انتخابات لینے ہیں تو خیبر پختونخوا اورپنجاب کی اسمبلیاں توڑیں، لیکن اب بات خان کے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔ وہ صرف خیبرپختونخوا اسمبلی توڑنے کا مکمل اختیار رکھتے ہیں یا پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کی طرح استعفے دے کر سڑکوں پر آجائیں لیکن ایسا ممکن نہیں کہ چوہدری پرویز الٰہی جنہوں نے انتہائی مختصر وقت میں پنجاب میں دور بزدار کے بگڑے معاملات بڑے احسن انداز میں سنبھالے ہیں اور گڈ گورننس کے ساتھ عوامی فلاح و بہبود کے لاتعداد منصوبے تیز رفتاری کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچا رہے ہیں۔ اب کیسے ممکن ہے کہ وہ خان کے کہنے پر پنجاب اسمبلی توڑ کر خالی ہاتھ گھر چلے جائیں۔ یقیناً ابھی وہ مرحلہ آنا باقی ہے جب چوہدری پرویز الٰہی خان صاحب کے سامنے کارکردگی کی بنیاد پر انتخابی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا حساب کتاب کریں گے اورآئندہ عام انتخابات کےبارے میں رولز آف گیم طے کئے بغیر وہ کبھی خان کے ساتھ تعاون نہیں کریں گے۔ توقع یہی ہے کہ اگر چوہدری پرویز الٰہی نے پینترا نہ بدلا اور حالات نے انہیں آصف زرداری کے کیمپ میں جانے پر مجبور نہ کیا تو وہ خان صاحب سے ایک تحریری معاہدے کی صورت میں ایک مضبوط انتخابی حصے دار بن کر سامنے آئیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ جب پنجاب اسمبلی یا حکومت توڑنے، استعفیٰ دینے کی نوبت آئے گی، خان صاحب کے بگ سرپرائز کے نتائج کیا نکلتے ہیں؟ کیا اتحادی حکومت اتنی آسانی سے خان کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گی اور ان کے کہنے پر آئندہ عام انتخابات کی تاریخ دے دے گی، ہنوز دلی دور است۔ خان کیلئے انتخابات اور میثاق جمہوریت سمیت تمام آئینی و قانونی امور پر مذاکرات کی حکومتی پیشکش تو پہلے دن سے ہی موجود تھی۔ بیک ڈور مذاکرات اور بعض معاملات میں پیش رفت کی اطلاعات بھی آتی رہی ہیں۔ محسوس یہی ہورہا تھا کہ کہیں بات نتیجہ خیز مرحلے پر موجود ہے لیکن یہ سب انہیں جال میں پھنسانے کی ایک چال تھی جو کارگر ثابت ہوئی اور خان صاحب اس خوش فہمی میں ہی رہے کہ حکومت نے عام انتخابات کے مطالبے کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں اور وہ اس کا کریڈٹ خود لینے کے چکر میں حکومت کے بچھائے جال میں پھنستے چلے گئے۔ اب معلوم ہوا یوٹرن سے اباؤٹ ٹرن کیسے لیا جاتا ہے؟ اس سرپرائز کا نتیجہ بھی کچھ نہیں نکلے گا ،یہ کیسے ممکن ہے کہ اتحادی حکومت خان کے دباؤ پر آئندہ انتخابات کا اعلان کرکے اپنی شکست کا اعتراف کرلے اور چوہدری پرویز الٰہی خالی ہاتھ پنجاب اسمبلی توڑنے پر آمادہ ہو جائیں یااتحادی حکومت قومی اسمبلی توڑنے سے انکار کردے اور آصف زرداری سندھ اسمبلی کو برقرار رکھیں تو کیا خان کا یہ سرپرائز کارآمد ثابت ہوگا، ہرگز نہیں۔وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے آئندہ سال مارچ تک صوبائی اسمبلی نہ توڑنے کا اعلان کرکے خان صاحب کی کشتی میں ایک بڑا سوراخ کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آنے والے دن خان صاحب کے لئے کوئی خوش کن نہیں ہوں گے۔ خان نے سنیارٹی اور میرٹ کی بنیاد پر اعلیٰ عسکری تقرریاں دل سے قبول نہیں کیں۔ انہیں اپنے عسکری ساتھیوں کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے فیصلے پر بھی شدید صدمہ ہے۔ خان اپنے بیانیے کی طرح ایک ایک کرکے اپنے سہاروں سے بھی محروم ہوچکاہے۔ جوں جوں عام انتخابات قریب آئیں گے خان کے اپنے جاں نثار ساتھی بھی اس کا ساتھ چھوڑتے چلے جائیں گے۔ایک گروہ ہے جوڈالروں کی بوریاں لئے ہر حلقے میں موجود ہے جو خان کے لانگ مارچ ، احتجاج پر بے دریغ سرمایہ کاری کرکے مستقبل کی اپنی انتخابی سیاست کو مضبوط کررہا ہے۔

تازہ ترین