سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے فرمایاہے کہ نواز شریف حکومت نے راولپنڈی کے سانحے سے توجہ ہٹانے کیلئے ان کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان کر دیا ہے ۔دوسری طرف وزیر اطلاعات سنیٹر پرویز رشید کا کہنا ہے کہ مشرف کیخلاف آئین کی دفعہ چھ کی خلاف ورزی کے الزام میں مقدمے کو مزید موخر کیا جاتا تو خدشہ تھا کہ مشرف بیرون ملک چلے جاتے ۔ اس مقدمے کی ٹائمنگ پر غور کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ اس کا تعلق راولپنڈی کے سانحے سے نہیں بلکہ اس درخواست سے ہے جس کی سماعت سندھ ہائیکورٹ میں 18نومبر کو ہونے والی تھی ۔ اس درخواست میں کہا گیا تھا کہ پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالا جائے تاکہ وہ بیرون ملک سفر کر سکیں ۔ درخواست کی سماعت سے ایک دن قبل اتوار کے دن وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے مشرف کیخلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان کر دیا ۔ اس اعلان کے فوراً بعد مشرف کے حامیوں نے یہ ’’سیاپا ‘‘ شروع کر دیا کہ ان کے خلاف غداری کے مقدمے کا مقصد راولپنڈی کے سانحے سے توجہ ہٹانا ہے ۔ پیپلز پارٹی اور اس کے ہم خیالوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ یہ سب ڈرامہ ہے ۔ مشرف کے خلاف کچھ نہیں ہو گا اگر کچھ ہونا ہوتا تو پھر مقدمہ 1999ء سے شروع کیا جاتا ۔
میری ذاتی رائے میں پیپلز پارٹی کی قیادت کنفیوژ ہے۔31جولائی 2009ء کو جب سپریم کورٹ نے مشرف کو غاصب قرار دیا تو پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانا پیپلز پارٹی کا آئینی فریضہ تھا لیکن پیپلز پارٹی والوں نے مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے سے گریز کیا اور یہ تاثر دیا کہ وہ اندرونی و بیرونی دبائو کے تحت ایسا نہیں کر رہی ۔ نواز شریف حکومت نے اپنے اقتدار کے پہلے چھ ماہ کے اندر اندر مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان کر دیا ہے ۔کچھ دن پہلے اسلام آباد میں ایک اہم مغربی ملک کے سفیر نے مجھے کہا کہ اگر مشرف کیخلاف غداری کا مقدمہ چلایا گیا تو فوج نواز شریف حکومت کو نہیں چلنے دے گی۔ میں نے جواب میں کہا کہ مجھے امید ہے کہ اگر فوج کو مشرف اور پاکستان میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو فوج صرف اور صرف پاکستان کا انتخاب کریگی ۔ سفیر صاحب نے حیرانگی سے پوچھا وہ کیسے ؟ میں نے جواب میں کہا کہ ایک طرف پاکستان کا آئین و قانون ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے دوسری طرف ایک ایسے شخص کی ذات ہے جس نے فوج کو بدنامی کے سوا کچھ نہیں دیا ۔ فوج کیلئے سنہری موقع ہے کہ وہ مشرف کے معاملے میں غیر جانبداری اختیار کرکے مجھ جیسے ناقدین کا منہ بند کر دے جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ پاکستان میں سزائیں اور جیلیں صرف سیاست دانوں کیلئے ہیں جبکہ فوجی آمروں کو ان کے بنگلوں میں کتوں سمیت بند کر دیا جاتا ہے ۔ میری باتیں سن کر مغربی سفیر نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا کہ کیا پاکستان واقعی اتنا بدل چکا ہے کہ یہاں ایک سابق فوجی آمر کو بھی سزا مل سکتی ہے اور وہ اپنے فارم ہائوس کی بجائے اڈیالہ جیل راولپنڈی میں قید کیا جائے گا ؟میں خاموش رہا اور ہماری گفتگو ختم ہو گئی ۔
میں جانتا ہوں کہ مشرف کو بچانے کیلئے آج بھی کچھ طاقتور لوگ سرگرم ہیں ۔مشرف اب حکومت میں نہیں لیکن کون نہیں جانتا کہ ججز نظر بندی کیس میں مشرف کے خلاف سرگرم وکلاء کو کس نے اغوا کیا اور کس نے انہیں خاموشی پر مجبور کیا؟سب جانتے ہیں کہ جو لوگ میڈیا پر یہ شور ڈال رہے ہیں کہ 3نومبر 2007ء کو مشرف کا ساتھ دینے والوں کی فہرست بہت طویل ہے اور غداری کا مقدمہ کئی اہم شخصیات کو اپنی لپیٹ میں لے گا وہ دراصل مشرف کو بچانا چاہتے ہیں۔لیکن میرا دل کہتا ہے کہ ایسا نہیں ہوگا ۔ آج جس کسی نے بھی میرا مذاق اڑانا ہے وہ بخوشی مذاق بھی اڑائے اور مجھے گالیاں بھی دے لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ ایک طرف پاکستان کا آئین و قانون ہے دوسری طرف پرویز مشرف ہے ۔ دونوں میں سے کون جیتے گا ؟اگر مشرف جیت گیا تو پھر اس آئین و قانون کی حفاظت اور اس پر عملدرآمد کا حلف لینے والے ہمیں کیا منہ دکھائیں گے؟ پھر میں کس منہ سے نوجوانوں کو کہوں گا کہ پاکستان کے مسائل کا حل آئین و قانون کی بالادستی میں ہے ؟ مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کا راولپنڈی کے سانحے میں ایک تعلق ضرور ہے۔ راولپنڈی میں دس محرم کے دن فرقہ وارانہ نفر ت کی آگ میں گیارہ انسانوں کو جلانے والے جانتے تھے کہ اس ملک میں آئین و قانون ایک مذاق بن چکا ہے اور انہیں آئین و قانون کا کوئی خوف نہیں تھا ۔ مشرف نے بھی 3نومبر 2007ء کو آئین اسی لئے توڑا کہ اسے کسی کا خوف نہیں تھا ۔ مشرف جانتا تھا کہ پاکستان کی عدالتیں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے سکتی ہیں، آصف علی زرداری اور نواز شریف جیلوں میں جا سکتے ہیں لیکن کوئی فوجی ڈکٹیٹر نہ جیل جا سکتا ہے نہ ہی کوئی عدالت کسی ڈکٹیٹر کو سزا دے سکتی ہے ۔ یہی تو اصل مسئلہ ہے ۔ ہمارا آئین وقانون صرف کمزور کو پکڑتا ہے اور کمزور کو سزائیں دیتا ہے طاقتور کے سامنے یہ آئین و قانون بے بس ہے ۔ اسی نا انصافی سے اس انتشار اور بے یقینی نے جنم لیا جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ۔ اگر ہمیں یہ انتشار اور بے یقینی ختم کرنی ہے تو پھر آئین و قانون کی حقیقی بالادستی قائم کرنا ضروری ہے ۔ پھر ایک فوجی آمر کو آئین توڑنے کی سزا دینا ہوگی۔ یہ ہماری قومی تاریخ کا اہم ترین موڑ ہے۔ایک طرف پرویز مشرف ہے دوسری طرف پاکستان ہے جو میرے وطن پاکستان کو ایک شخص کے مقابلے پر بہت کمزور سمجھتا ہے وہ بے شک میرا مذاق اڑائے، مجھے گالی دے اور بددعائیں دے لیکن جسے کسی کی ذات کی بجائے صرف پاکستان سے غرض ہے وہ ذرا سی تکلیف کرے اور سپریم کورٹ کا وہ تفصیلی فیصلہ پڑھ لے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے 3نومبر 2007ء کو جنرل پرویز مشرف نے آئین توڑ کر پاکستان کے ساتھ سنگین غداری کا ارتکاب کیا۔
میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ مجھے پرویز مشرف کو پھانسی پر لٹکتا دیکھنے کا کوئی شوق نہیں لیکن میں کسی مغربی سفیر کا یہ طعنہ بھی نہیں سن سکتا کہ پاکستان میں کسی فوجی آمر کو سزا نہیں مل سکتی ۔ جس دن پاکستان میں کسی فوجی آمر کوبھی سزا مل گئی وہ حقیقی تبدیلی کا دن ہو گا۔پرویز مشرف کو سزاملنے سے افوج پاکستان کی کوئی توہین نہیں ہو گی بلکہ فوج کی عزت میں اضافہ ہو گا ۔ فوج اور عوام کے درمیان ایک نیا رشتہ جنم لے گا جو پاکستان کی سلامتی کو مزید مضبوط بنائے گا ۔ آج جو لوگ فوج کا نام اور فوج کا کندھا استعمال کرکے مشرف کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں اور میڈیا پر مسکرا مسکرا کر کہتے ہیں کہ مشرف کو سزا نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ سابق آرمی چیف ہے، ایسے لوگ دراصل پاکستان کا مذاق اڑا رہے ہیں ۔ مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت کیلئے ہائی کورٹوں کے تین ججوں پر مشتمل خصوصی عدالت قائم ہو چکی ہے ۔ ابھی عدالت کی سماعت شروع نہیں ہوئی اور یاران نکتہ دان یہ فرماتے ہیں کہ مشرف بچ نکلے گا ۔میں یہ تو نہیں کہتا کہ مشرف کو ضرور سزا ملے گی لیکن مجھے یقین ہے کہ ایک شخص کے مقابلے پر آخری فتح میرے وطن پاکستان کی ہو گی ۔ مجھے یقین ہے کہ میرا وطن ابھی اتنا کمزور نہیں ہوا کہ جس شخص کو سپریم کورٹ نے غاصب اور غدار قرار دیا اسے ایک خصوصی عدالت کے تین جج چھوڑ دیں گے ۔ پرویز مشرف کو غدار ثابت کرنے کیلئے سپریم کورٹ کا وہ فیصلہ ہی کافی ہے جس پر 14ججوں نے دستخط کئے ۔