• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ کے دو اراکین کانگریس نے امریکی کانگریس میں ایک قرارداد جمع کرائی ہے کہ پاکستان نے 1971 میں مشرقی پاکستان میں ہندوؤں اور بنگالیوں کی نسل کشی یعنی Genocide کیا ہے۔ قرارداد میں صدر امریکہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ مشرقی پاکستان کے 1971 کے واقعات کے حوالے سےپاکستان کو جینوسائیڈ کا مرتکب قرار دیا جائے۔ اگر یہ قرارداد منظور ہو گئی تو پاکستان دنیا بھر کے سامنے جنگی جرائم کا مجرم سمجھا جائے گا اور پھر بھارت اور بنگلہ دیش اس مسئلے کو لے کر بین الاقوامی عدالت انصاف میں بھی جا سکتے ہیں۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ پاکستان مشرقی پاکستان میں تو ملک کا دفاع نہ کر سکا مگر اب تک اپنی ساکھ کو بھی نہیں بچا سکا۔ اس قرارداد کو جن دو اراکین کانگریس نے پیش کیا ہے ان میں سے ایک کا تعلق بھارت سے ہے۔ روہت کھنہ بھارتی امریکی ہے۔ اس لحاظ سے یہ خدشہ موجود ہے کہ اس کوشش کے پیچھے بھارت اور بنگلہ دیش ہو سکتےہیں۔ روہت کے ووٹرز میں بہت بڑی تعداد بنگالی اور ہندو امریکیوں کی ہے۔ گوکہ مسلمان اور پاکستانی امریکیوں نے بھی انتخابات میں اس کی حمایت کی ہے مگر پاکستانی سیاسی طور پر اتنے سرگرم نہیں ہوتے جبکہ بھارتی اور بنگلہ دیشی سرگرم ہوتے ہیں۔ میں یہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جب سے بھارت میں نریندر مودی اور بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ برسر اقتدار ہیں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے تقریباً ہر سال کے اجلاس میں دونوں ممالک پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم پاکستان پر دہشت گردوں کی تربیت کے الزامات لگاتے ہیں جب کہ بنگلہ دیشی وزیر اعظم 1971 کے حوالے سے پاکستان کو بدنام کرتی ہیں۔ اسی برس مارچ کے مہینے میں بنگلہ دیش کی حکومت نے سرکاری طور پر اعلان کیا تھاکہ ہر سال 25 مارچ کو بنگلہ دیش جینو سائیڈ ڈے یعنی یوم نسل کشی منائے گاتاکہ دنیا اور اپنی قوم کو ہر سال یہ بتایا جائے کہ 1971 کے 25 مارچ کو پاکستانی فوج نے آپریشن کر کے تیس لاکھ بنگالیوں کا قتل عام کیا تھا۔ اب امریکی کانگریس میں قرارداد پیش کر کے اگلا قدم اٹھایا گیا ہے جب کہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔اس وقت جب یکم مارچ کو اسمبلی کا اجلاس ملتوی کیا گیا تھا، پاکستان کی فوج بیرکوں میں تھی۔ عوامی لیگ کے ورکرز اور مکتی باہنی نے بڑے پیمانے پر غیر بنگالیوں اور مغربی پاکستانیوں کا قتل عام شروع کر دیا تھا۔ 7 مارچ کو شیخ مجیب نے سول نافرمانی کا اعلان کر دیا تھا۔ بنگالی جوانوں پر مشتمل ایسٹ بنگال رجمنٹ اور ایسٹ پاکستان رائفلز مع پولیس نے بغاوت کردی تھی۔ یہ اسلحے کے ساتھ ندی، نالوں اور کھیتوں کے ذریعے بھارت کی جانب بھاگ رہے تھے اور راستوں میں آنے والی غیر بنگالیوں کی آبادیوں کا صفایا کرتے جا رہے تھے ۔ 25 مارچ سے پہلے پاکستان کی فوجوں نے کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔ اس لئے پاکستان کی طرف سے بنگالیوں کی نسل کشی کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے؟ پچیس مارچ کو آرمی آپریشن شروع ہوا مگر اس کی خبر عوامی لیگ اور شیخ مجیب کو پہلے سے ہوگئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی لیگ کے لاکھوں ورکرز اور حامی بھارت فرار ہو گئے تھے جہاں ان کی فوجی تربیت کے لئے کیمپس بنا دئیے گئے تھے۔ آپریشن شروع ہوتے ہی عام لوگوں کی اکثریت بھی زندگی بچانے کیلئے اپنے گاؤں کی طرف چلی گئی۔ ڈھاکہ شہر تقریباً خالی ہو چکا تھا۔ فوجی دستے کئی کئی ہفتوں تک دوسرے شہروں اور سرحدی علاقوں میں نہیں پہنچ سکے تھے۔ جب یہ میمن سنگھ، سانتا ہار، بھیرب بازار، دیناجپور، ٹھاکر گاؤں، جیسور اور کومیلا وغیرہ پہنچے تو وہاں ان کو غیر بنگالیوں یعنی بہاریوں کی لاشیں ہی لاشیں ملیں۔ جن لوگوں نے مسجدوں میں پناہ لی تھی وہاں گھس کر ان کو بھی قتل کیا گیا۔ پاکستان کے فوجیوں کو مسجدوں میں آٹھ آٹھ انچ خون کی تہیں جمی ہوئی ملیں۔ بے شمار ایسے علاقے تھے جہاں پاکستان کے حامیوں کو قتل کر کے اجتماعی قبروں میں ڈال دیا گیا تھا اور بد ترین بات یہ ہے کہ 16 دسمبر کے بعد غیر ملکی صحافیوں کو یہی لاشیں دکھا کر عوامی لیگ نے بنگالیوں کی لاشیں بتائیں ۔ کہا جاتا ہے کہ یکم مارچ سے مئی تک تین سے پانچ لاکھ تک نہتے غیر بنگالیوں کو مکتی باہنی اور بھارتی فوجیوں نے قتل کیا تھا ۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ مشرقی پاکستان کے جنرلز نے آج تک کبھی پاکستانی قوم یا دنیا کو یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ اصل میں جینو سائیڈ کس کا اور کس کے ہاتھوں ہوا؟ آج بھی جب بین الاقوامی سطح پر دشمن نے کارروائی شروع کردی ہے توپاکستان ہنوز خاموش ہے ۔ لگتا ہے امریکہ میں پاکستانی سفارتخانے کو شاید اس بات کا علم ہی نہیں کہ امریکہ کے کانگریس مین پاکستان کے خلاف کیا کام کر رہے ہیں ۔ نہ ہی پاکستان کی وزارت خارجہ اس سلسلے میں کچھ کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستان کے میڈیا اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو بھی کوئی ہوش نہیں۔

اس وقت امریکہ میں پاکستانیوں کی صرف ایک غیر سیاسی تنظیم کچھ اقدامات کر رہی ہے جس کا نام Voice for Humanity ہے۔ یہ تنظیم متعلقہ اراکین کانگریس اور دیگر اراکین کو خطوط لکھ رہی ہے کہ اصل واقعہ یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسندوں نے غیر بنگالیوں کا قتل عام کیا تھا۔ پاکستان کی فوج آپریشن کے دوران جہاں جہاں بھی گئی اسے وہ باغی ملے ہی نہیں جو بھارت بھاگ چکے تھے اور یہ کہ فوج کو صرف غیر بنگالیوں کی لاشیں ملیں۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ آخر پاکستان دنیا کو آج بھی یہ کیوں نہیں بتاتا کہ کتنے غیر بنگالیوں کا قتل عام ہوا تھا؟ کیا اس لئے کہ ان زندہ بچ جانے والے پاکستانیوں کو اپنانا نہ پڑے جو پچاس برس پہلے اپنے گھروں سے نکال کر کھلے میدانوں میں ڈال دئیے گئے تھے؟ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ جن پاکستانیوں نے اتنی بڑی تعداد میں مشرقی پاکستا ن میں وطن کے تحفظ کی خاطر جانیں نچھاور کیں ان کے لواحقین کو وہیں چھوڑ دیا گیا اور آج بھی وہ غلیظ کیمپوں میں پڑے وطن کی راہ دیکھ رہے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین