• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے حکومتی اقدامات پر اظہارِ عدم اطمینان اوراس معاملے کو امریکی سفیر کے روبرو اٹھانے کا حالیہ حکم قابلِ تحسین ہے اور پوری پاکستانی قوم اس عدالتی حکم کا خیر مقدم کرتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کیلئے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی پاکستانی عوام کے ساتھ مل کر مسلسل کوششیں کر رہی ہیں۔وہ اپنی مظلوم بہن کو انصاف دلانے اور امریکی قید سے رہائی کیلئے کراچی سے اسلام آباد تک عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹا رہی ہیں۔امر واقعہ یہ ہے کہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے ساتھ محب وطن سیاسی وسماجی تنظیموں نے شب و روز انتھک جدوجہد کر کے پچھلے کئی برسوں سے اس اہم قومی ایشو کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ اس دوران ڈاکٹر عافیہ کی فیملی نے بڑا مشکل اور کڑا وقت گزارا ہے لیکن اس کے باوجود وہ ثابت قدم رہے اور انھوں نے استقامت کا مظاہرہ کیا۔ یہ امر قابلِ افسوس ہے کہ ان کی والدہ اپنی بیٹی عافیہ صدیقی کی راہ تکتے تکتے اس جہانِ فانی سے کوچ کر چکی ہیں۔ قوم کی مظلوم بیٹی کئی برسوں سے امریکی جیل میں نا کردہ گناہوں کی سزا بھگت رہی ہیں۔ مگر کسی بھی حکومت نے آج تک ان کی رہائی کیلئے سنجیدگی سے کوشش ہی نہیں کی۔چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے بھی اقتدار میں آنے سے قبل ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کےمعتدد بار مطالبے کئے مگر جب وہ اقتدار میں آئے تو انھوں نے اپنے دیگر عدوں کی طر ح اس وعدے پربھی یوٹرن لے لیا۔ماضی میں نوازشریف اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں کے ادوار میں اس قومی ایشو پر محض ٹال مٹول سے کام لیا جاتا رہا۔ موجودہ شہباز شریف حکومت کو قوم کی بیٹی کی رہائی کے لئے اب سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور قومی نوعیت کے حامل اس معاملے کو حل کر کے ماضی میں مسلم لیگ ن اور دیگر سابق حکومتوں پر مجرمانہ غفلت کے لگنے والے سیاہ دھبوں کو بھی دھو نا ہا گا ۔ امریکی صدارتی انتخاب کے امیدوار اور 2 مرتبہ امریکی سینیٹر منتخب ہونے والے رکن مسٹر مائیک گریول نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کیلئے اوباما کے دور حکومت میں پاکستان کے دورے کے موقع پر بھی کہا تھا، ’’ڈاکٹر عافیہ کو غیر قانونی طور پر حراست میں لیا گیا اور اسے متنازعہ سزا دینے سے پہلے قید تنہائی میں تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا جو ایک جرم ہے‘‘۔اسی طرح سابق امریکی اٹارنی جنرل رمزے کلارک نے بھی ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کیلئے پاکستان کے دورے کے موقع پر کہا تھا کہ ’’ڈاکٹر عافیہ صدیقی اقتدار کے لئے کھیلی جانے والی بین الاقوامی سیاست کا شکار ہوگئیں۔ میں نے اپنے پورے کیریئر میں اس طرح کی کھلی ناانصافی نہیں دیکھی نہ ہی اس نے کسی کو قتل کیا اور نہ ہی اس نے ایسی کوئی کوشش کی بلکہ اسے ہی تین مرتبہ گولیاں ماری گئی تھیں۔یہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی تھی۔ انصاف کے علمبردار میرا ساتھ دیں گے۔وہ پاکستان کی ایک بے گناہ شہری ہے جس پر ظلم کیا گیا انصاف فراہم نہیں کیا گیا ۔ امریکہ میں اس کا مقدمہ چلانا غیر قانونی اور بلاجواز تھا۔ وہ ایک ماں اور ایک بیٹی ہے جس کو فوری رہا کیا جائے۔‘‘ امریکی شہریوں کی جانب سے جو امریکی معاشرے میں مقام رکھتے ہیں، یہ عافیہ کی بے گناہی اور اس کے ساتھ ہونے والی شرمناک ناانصافی کی گواہی ہے۔ اس طویل اور صبرآزما عرصہ کے دوران امریکہ اپنے شہریوں ریمنڈ ڈیوس اور کرنل جوزف جو پاکستان کے مجرم تھے، انھیں واپس لے گیا۔ امریکہ میں قانون کی خلاف ورزی کرنے والی دیویانی کھوبراج کی اسٹرپ سرچنگ پر بھارتی قیادت نے امریکہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیاتھااور امریکہ کو اسے رہا کرنا پڑاتھا۔المیہ یہ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ اس وقت جس امریکی جیل ’’ایف ایم سی، کارسویل“ میں جرم بے گناہی کی پاداش میں 86 سال کی قید تنہائی کی سزاکاٹ رہی ہیں،یہ عافیہ صدیقی کی غم بھری کہانی ہے۔دو ہزار آٹھ میں بین الاقوامی میڈیا کے توسط سے پتہ چلا کہ عافیہ بگرام، افغانستان کے خفیہ امریکی عقوبت خانے میں قیدی نمبر 650 کے نام سے قید ہے اور اس پر انسانیت سوز تشدد کیا جارہا ہے۔ یہ پہلا موقع تھا جب عافیہ کو بآسانی پاکستان واپس لایا جاسکتا تھاکیونکہ وہ امریکی شہری نہیں تھی اور اس پر امریکی فوجیوں پر حملے کا جھوٹا الزام لگایا گیا تھا۔ اس کے بعد ہمارے حکمرانوں اور انتظامیہ کو یکے بعد دیگرے کئی مواقع ملےجن سے فائدہ اٹھا کر عافیہ کو وطن واپس لایا جا سکتا تھالیکن ایسا نہ ہوسکا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور پاکستان واپسی سے موجودہ سول اور عسکری قیادت کے وقار اور نیک نامی میں یقیناً اضافہ ہوگا۔ شہباز شریف حکومت کو حالیہ عدالتی فیصلے کے مطابق اس اہم قومی معاملے میں فوری پیش رفت کرنی چاہئے۔

تازہ ترین