• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تھیلز کو قدیم یونان کا پہلا فلسفی سمجھا جاتا ہے۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت روزی روٹی کے حصول کی بجائے کائنات کے مشاہدے میں صرف کیاکرتا۔ اسی وجہ سے اس کی مالی حالت بھی زیادہ اچھی نہ تھی۔ ایک دفعہ وہ آسمان کی طرف دیکھ کر چلتے ہوئے گڑھے میں جا گرا۔ وہاں موجود لوگوں نے اس کا مذاق اڑایا کہ تمہیں نیچے زمین کی چیزوں کا علم نہیں ہوتا اور افلاک بارے لا یعنی گفتگو کرتے رہتے ہو۔ تھیلز ایسی باتوں کو کبھی خاطر میں نہ لاتا اور اپنا کام جاری رکھتا۔ کسی نے اسے غربت کا طعنہ دیا تو یونانی فلسفی نے کہا کہ دولت کا حصول میرا مقصد نہیں ہے، لوگوں نے کہا کہ تم اس بے مقصد آسمانی مشاہدے سے دولت حاصل کر بھی نہیں سکتے۔ اس بار تھیلز سے رہا نہ گیا۔ یہ سردیوں کا موسم تھا۔ تھیلز کے پاس کچھ پیسے تھے۔ اس نے اپنی جمع پونجی سے شہر بھر سے زیتون کا تیل نکالنے والی پریسز خرید لیں۔ لوگ تھیلز کی اس بیوقوفی پر ہنسے کہ سردیوں میں پریسز خرید کر یہ فلسفی کیا ثابت کرنا چاہتا ہے جب کہ زیتون کی کاشت کا موسم گرمیوں میں ہوتا ہے۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ جب گرمیاں آئیں تو زیتون کی ریکارڈ فصل ہوئی۔ تیل نکالنے کیلئے جب لوگوں کو پریسز کی ضرورت پڑی تو یاد آیا کہ وہ تو تھیلز نے سردیوں میں ہی خرید کر اپنے پاس رکھ لی تھیں۔ اب سبھی اس '’’بے وقوف‘‘ فلسفی کی جانب بھاگے۔ پورے شہر میں چوں کہ صرف تھیلز کے پاس پریسز تھیں، سو اس نے لوگوں سے منہ مانگے دام لیے اور چند دنوں میں جزیرے کا امیر ترین شخص بن گیا۔ تھیلز کا سردیوں میں پریسز خرید کر اپنے پاس رکھ لینا بظاہر کم عقلی تھا مگر اسے موسمی حالات اور تبدیلیوں کا بخوبی علم تھا۔ وہ ساری زندگی اجرام فلکی کا مشاہدہ کرتا رہا تھا اور بخوبی جانتا تھا کہ آنے والا موسم زیتون کی کاشت کیلئے نہایت سازگار ہو گا اور لوگوں کو بڑی تعداد میں پریسز کی ضرورت پڑے گی، سو اس نے اطمینان سے تمام پریسز خریدیں اور چھ ماہ میں امیر ہو گیا۔ لوگوں کو مشاہدے کی اہمیت کا اندازہ ہو چکا تھا اور اب تھیلز کی ہنسی اڑانے والی تمام زبانیں بند ہو چکی تھیں۔ یہ سارا واقعہ ہمیں ارسطو کی تحریروں میں ملتا ہے۔فلسفے کی بنیاد مشاہدہ پر ہوتی ہے۔ مشاہدہ مسلسل غور و فکر کا نام ہے۔ دنیا جہاں کی تمام تھیوریاں اسی غور و فکر سے نکلی ہیں۔ یہ غور و فکر اس وقت اپنی اہمیت کھو دیتا ہے جب ہم سوچ کی پرواز کے آگے بند باندھ دیتے ہیں۔ فلسفہ اپنی موت آپ مر جاتا ہے جب ہم فکر و تدبر کو تعصب کی زنجیروں میں جکڑ کر قید کر لیتے ہیں۔ سینکڑوں سال تک ہر وہ بات درست سمجھی جاتی رہی جو ارسطو نے کہی تھی۔ کسی معاملے پر بحث کا فیصلہ اس شخص کے حق میں ہو جاتا تھا جو اپنے دلائل میں ارسطو کی کسی کتاب کا حوالہ لے آتا۔ گویا، اسے حرفِ آخر سمجھ لیا گیا۔ اب جب ہم ارسطو کی کتابیں پڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی کئی باتوں کی نفی سائنس کی مختلف دریافتیں ہی کر دیتی ہیں۔ افلاطون، سقراط، ڈارون، مارکس اور اسی طرح کے بیسیوں مفکرین کے پیروکار ان کی باتوں کو آسمانی صحائف کی طرح درست تصور کرتے رہے۔ لیکن وقت یہ بتاتا ہے کہ ضروری نہیں کہ اگر کسی کی ایک کی تھیوری درست ہو تو دوسری بات بھی حقیقت پر مبنی ہو۔ تمام فلسفیوں، سائنسدانوں اور دانشوروں کے خیالات کو ایک انسان کی سوچ ہی سمجھنا چاہیے جو کسی وقت غلط بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ معاشرے کی ذہنی نشوونما تب رُکتی ہے جب وہ کسی ایک موضوع پر اسٹیبلشڈ فلسفے میں تبدیلی سے انکار کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ہم انیسویں صدی کے کچھ علماء کی باتوں پر من و عن عمل کریں تو ہمیں ٹرین میں سفر نہیں کرنا چاہیے، اسپیکر پر اذان نہیں دینی چاہیے، انگریزی زبان سیکھنے سے انکار کرنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ زیادہ تر لوگ چونکہ تحقیق و مشاہدہ سے دور ہی تھے، تو اس طرح کے فتوئوں پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیتے تھے۔ فکری ہو یا سیاسی، ہر میدان میں معاشرہ اس وقت پستی کی جانب گامزن ہوتا ہے جب شخصیات کے بت بنا کر ان کے پیش کردہ نظریات سے چھیڑ چھاڑ کو ممنوع قرار دے دیا جاتا ہے۔ قائد اعظم نے کہا تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو نہیں ختم کر سکتی، ہم بابائے قوم کے اس قول کے پیچھے اپنی کاہلی، کام چوری اور سستی کو ہر وقت چھپائے بیٹھے رہے اور 1971 میں پاکستان کا ایک حصہ الگ ہو گیا۔ کئی سال سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ ملک اسلام کے نام پہ بنا ہے تو اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ یاد رہے کہ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جس کو وقت اور حالات نے متاثر نہ کیا ہو۔ کوئی قوم ناقابلِ تسخیر نہیں، کوئی ملک جغرافیائی اعتبار سے غیر متبدل نہیں اور کسی اسٹیٹ کی ترقی کی ذمہ داری رب العزت نے نہیں لی۔ بھارت نے بین الاقوامی ریکوائرمنٹس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالا اور ہم سے آگے نکل گیا، بنگلہ دیش نے بھی اپنی سمت متعین کر لی ہے، مگر ہم وقت کے بدلتے تقاضوں کی پہچان نہ کر سکے۔ ہمارے پاس دوسروں کا مذاق اڑانے والے بہت ہیں لیکن مستقبل کے حالات کو وقت سے پہلے بھانپنے والا تھیلز کوئی نہیں۔ یہاں مشاہدے اور رہنمائی کی جگہ اعتقاد اور پیروی نے لے لی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے رہبر سے سوال نہیں کرتے بلکہ بھیڑ کی طرح اس کے پیچھے چلتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ گڑھے میں گر جاتے ہیں اور پھر وہ رہبر ہمارے کندھے پر پاؤں رکھ کر اس سے باہر نکل جاتا ہے اور ہمیں وہیں گرا چھوڑ جاتا ہے۔ حالات کا آنکھیں کھول کر جائزہ لیں تو ہمارے ساتھ ایسا کبھی نہ ہو۔ تقدیر کے انتظار میں رہنے کی بجائے تحقیق کے شعبے میں آگے بڑھنا ہو گا، یہی بقا کی ضمانت ہے۔

تازہ ترین