• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنرل(ر) پرویز مشرف.....مٹی پائو!...روزن دیوار سے ۔۔۔۔۔۔عطاء الحق قاسمی

جنرل پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے کے لئے خصوصی عدالت قائم کردی گئی،جنرل صاحب پاکستان کی تاریخ کا ایک افسوسناک باب ہیں، ہر فوجی آمر کی طرح انہوں نے بھی پاکستان میں تعمیر و ترقی کی رفتار کو ریورس گیئر لگایا، ہر فوجی آمر کی طرح خود کو عقل کل سمجھا۔ جمہوری حکومت کا تختہ الٹا، ملک کے منتخب وزیر اعظم اور ان کے تمام خاندان کو جبر و استبداد کا نشانہ بنایا اور عوام کی بھاری اکثریت کی امنگوں اور آرزوئوں کو اپنے بوٹوں تلے روند ڈالا۔ اس سے پہلے بھی آمریت کے ادوار میں بدترین اقدامات کے ذریعے عوامی مینڈیٹ کی توہین کی گئی حتیٰ کہ ایک وزیر اعظم کو قتل بھی کیا گیا لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور ان کے رفقاء کو قید کردیا گیا ہو، تاہم اس شر میں سے یہ خیر برآمد ہوا کہ پوری قوم عدلیہ کی آزادی کے لئے میدان عمل میں کود پڑی، اس کا کریڈٹ اگرچہ قوم کے تمام طبقوں کو جاتا ہے تاہم اس موقع پر میاں محمد نواز شریف اور وکلاء برادری نے ایک تاریخی کردار ادا کیا۔ جنرل پرویز مشرف کے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے لیکن نائن الیون کے سانحہ کے بعد وہ ایک فون پر جس طرح امریکہ کے سامنے ڈھیر ہوگئے ان کے اس ناعاقبت اندیشانہ اقدام کا خمیازہ پاکستانی قوم آج تک بھگت رہی ہے۔
جنرل صاحب کی’’قیادت‘‘ میں پاکستانی عوام کے آٹھ سال اور اس کے بعد آنے والے کئی سال برباد ہو کر رہ گئے مگر اب اس قصے کو طول دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ شخص جو کل تک خدا کے لہجے میں بول رہا تھا اور قوم کو مکے دکھاتا تھا آج نشان عبرت بنا ہوا ہے،کروڑوں روپوں سے تعمیر کی گئی اس کی چک شہزاد کی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دے کر اسے وہاں بند کردیا گیا، اب ہر مقدمے میں ان کی ضمانتیں ہوتی جارہی ہیں لیکن حکومت نے اب آرٹیکل 6کے حوالے سے ان پر مقدمہ قائم کیا ہے جس کا تعلق3نومبر کی ایمرجنسی کے نفاذ سے ہے۔ میرے نزدیک جنرل پرویز مشرف قوم کے مجرم ہیں لیکن قارئین کو میری اس رائے سے اتفاق کا مکمل حق ہے کہ اب اس گند میں ہاتھ ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ حکومت کو اس ساری کہانی کے اختتام پر یہ سوچنا پڑے گا کہ اس نے اس حوالے سے کیا کھویا، کیا پایا؟ مجھے تو ایسے لگتا ہے جیسے کوئی خفیہ ہاتھ حکومت کو اس گڑھے کی طرف ہانک کر لے جارہا ہے جیسے شکاری اپنے شکار کو نشانہ بنانے سے پہلے’’ہانکا‘‘ لگا کر اپنے نشانے کی زد میں لاتے ہیں۔ اس وقت ا پوزیشن جماعتیں بھی حکومت کو ہلا شیری دینے میں مصروف ہیں لیکن اس اقدام کے نتیجے میں پیدا ہونے والے کسی بحران یا خطرے کی کسی گھڑی میں دورکھڑی تماشا دیکھتی نظر آئیں گی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس فیصلے سے پہلے حکومتی زعماء نے اس کے سارے پہلوئوں پر غور نہیں کیا ہوگا۔ یقینا وہ سب کچھ ان کے ذہن میں ہوگا جو میرے جیسا ایک عامی بھی وقت سے بہت پہلے ان سب امکانات کے بارے میں سوچ رہا ہے جن کا تعلق مشرف پر غداری کا مقدمہ قائم کرنے کے حوالے سے ہے، تاہم میں نہیں جانتا کہ ان امکانات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومتی زعماء کے ذہن میں کوئی پلان موجود ہے کہ نہیں؟
ظالم کو ظلم کی سزا ضرور ملنا چاہئے تاکہ آئندہ کسی کو آئین پامال کرنے کی جرأت نہ ہو لیکن کیا اس اقدام سے پہلے ہم یہ اطمینان حاصل کرچکے ہیں کہ پاکستانی قوم موجودہ حکومت کی اعلیٰ کارکردگی کی بناء پر پوری طرح اس کی پشت پر موجود یا اس امر کا امکان تو نہیں کہ’’نواز شریف قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘کے نعرے لگانے والے اس وقت کوسوں دور تک نظر نہیں آرہے تھے جب 99ء میں بھاری مینڈیٹ والی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا؟ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت انتخابات میں عوام سے کئے گئے وعدے پورے کرنے کے لئے زیادہ تیز رفتاری کا مظاہرہ کرے، صورتحال یہ ہے کہ حکومت اپنی تمام تر توانائیاں اسی کام کے لئے وقف کئے ہوئے ہے ،وزیر اعظم نواز شریف بین الاقوامی برادری میں پاکستان کی تنہائی ختم کرنے کے لئے مختلف ممالک کے دورے کررہے ہیں ،مختلف منصوبوں کے حوالے سے معاہدے کئے جارہے ہیں جب وہ پاکستان واپس آتے ہیں تو کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب صبح سے رات گئے تک وہ عوامی بھلائی کے منصوبوں کو عمل شکل دینے کے لئے میٹنگیں نہ کرتے ہوں،اسی طرح کی ایک میٹنگ میں شرکت کا مجھے بھی موقع ملا جس میں لاکھوں بے گھر لوگوں کو چھت فراہم کرنے کے لئے طریق کار طے کیا جارہا تھا، اسی طرح بے روزگار نوجوانوں کے لئے اربوں روپوں کے قرضے دینے کے پروگرام کو بھی عملی شکل دی جارہی ہے تاکہ وہ اپنا کاروبار شروع کرکے اپنے خاندانوں کا سہارا بن سکیں۔ کراچی میں ٹارگٹڈ کارروائی کی گئی اور وہ شہر جو قبائلی علاقہ بن چکا تھا وہاں آج حکومت کی رٹ قائم ہے، اسی طرح پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف جو ایک غیر معمولی انسان ہیں ،اپنی جان اور صحت کو خطرے میں ڈالتے ہوئے ہر وقت عوامی بھلائی کے ان منصوبوں میں بھی اپنا حصہ ڈال رہے ہیں جو براہ راست ان کی ذمہ داری میں شامل نہیں،وہ پاکستانیوں کے لئے توانائی کے حصول کے لئے کوشاں ہیں تاکہ عوام کو لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے نجات دلائی جاسکے، یہ سب کچھ اپنی جگہ لیکن عوام حکومتی کارکردگی سے مایوس نظر آتے ہیں۔ وہ بجا طور پر اس کارکردگی کا نتیجہ ٹماٹروں ،گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں تلاش کرتے ہیں، علاوہ ازیں حکومت ان کے لئے جن منصوبوں کی تکمیل کے لئے کوشاں ہے نیز ابھی تک جن شعبوں میں بہتری نظر آئی ہے میڈیا کی بے نیازی کی وجہ سے وہ کامیابیاں اور کاوشیں بھی عوام تک نہیں پہنچ پائیں، ان حالات میں آگ میں ہاتھ ڈالنا کم از کم میرا ذہن قبول نہیں کررہا۔ ترکی کی حکومت نے پہلے عوام کے دل جیتے، اس کے بعد وہ کونے کھدرے بند کئے جدھرسے ناگ نکل کر جمہوری حکومتوں کو ڈسا کرتے تھے،یوم عاشور کے روز راولپنڈی میں ہونے والے سانحہ کی آگ کے شعلے کئی شہروں تک پہنچے، مگر حکومت اور میڈیا کی کوششوں سے نقصان اس سے کئی گنا کم ہوا، جتنا نقصان ہوسکتا تھا۔ حکومت جتنی پراعتماد نظر آرہی ہے اسے اتنا پراعتماد ہونا نہیں چاہئے، وہ فی الحال خاموشی سے اپنے ترقیاتی کاموں کی تکمیل کے لئے کوشاں رہے اور اس کے ساتھ ساتھ ا پنی کامیابیاں عوام تک پہنچانے کے علاوہ مہنگائی کے جن کو واپس بوتل میں بھیجے کہ اس کے بغیر عوام کو قائل نہیں کیا جاسکتا کہ حکومت آپ کے لئے بہت کچھ کررہی ہے۔
پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ تو قائم ہوچکا (میرے خیال میں اس مقدمے کے باوجود ان پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی) لہٰذا اب یہ تجویز بےمعنی ہے کہ اس کی بجائے پارلیمنٹ ماضی کے ان سب آمروں کے خلاف ایک قرار داد مذمت پاس کرتی ا ور ان کے لئے کوئی عدالتی سزا بھی تجویز کی جاتی۔ میرے خیال میں ایسے ہوتا تو بہتر تھا۔ چوہدری شجاعت حسین کا مشہور زمانہ جملہ’’مٹی پائو‘‘ کئی مواقع پر حقائق سے گریز کا آئینہ دار بھی ہوتا تھا، مگر کاش پرویز مشرف پر مقدمہ چلانے کی بجائے ’’مٹی پائو‘‘کے اصول نہیں بلکہ بے اصولی پر مبنی مقولے سے کام لیا جاتا، قوم اس بے اصولی کو بھی دوسری بے اصولیوں کی طرح قبول کرلیتی۔
تازہ ترین