تحریر: نرجس ملک
ماڈل: پریسا
ملبوسات: پریسا فاروق
آرایش: دیوا بیوٹی سیلون
عکّاسی: عرفان نجمی
لے آؤٹ: نوید رشید
سیّد کاشف رضا کی ایک خُوب صُورت غزل کے اچھوتے سے خیالات پر مبنی دو اشعار ہیں ؎ چمکی ہوئی ہو، موسمِ سرما کی اِک دوپہر.....خوش سبز راستوں میں کوئی ہم خرام ہو.....مہکی ہوئی مِلو، کسی چاہت کی یاد سے.....چاہت کا چاہے میرے علاوہ بھی نام ہو۔ کیا بات ہے، ’’ہم خرام‘‘ کے دل، آنکھوں میں خواہ کسی کی بھی چاہت بَسی ہو، کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔ کہاں تو پرانے شعراء نے ’’رقیبِ رُو سیاہ‘‘ کی شان میں ’’قصیدے‘‘ لکھ لکھ کے صفحات کے صفحات سیاہ کر ڈالے۔
اپنے داغ دہلوی کا تو وہ کیا زبانِ زدِعام سا شعر ہے ؎ تمہارے خط میں نیا اِک سلام کس کا تھا.....نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا۔ پھر حسرت موہانی نے کہا ؎ وہ جو بگڑے رقیب سے حسرت.....اور بھی بات بن گئی دل سے۔ جب کہ غالب نے تو رقیب کے ایسے ایسے لتّے لیے کہ خدا کی پناہ۔ ؎ مَیں مضطرب ہوں وصل میں خوفِ رقیب سے.....ڈالا ہے تم کو وہم نے کس پیچ و تاب میں۔ ؎ ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا.....بن گیا رقیب آخر، تھا جو راز داں اپنا۔ اور ؎ بچتے نہیں مواخذۂ روزِ حشر سے.....قاتل اگر رقیب ہے، تو تم گواہ ہو۔
ہاں، مگر یہ ضرور ممکن ہے کہ خوش رنگ،سر سبز رستوں میں ہم خرام کا دل تو خواہ کسی کی بھی چاہت سے مہک رہا ہو، مگر آرایش و زیبایش عین موسم کی مناسبت سے اور اس قدر حسین و دل نشین ہو کہ دیکھنے والی نگاہ خوش لباسی، جامہ زیبی ہی پہ ٹھہر کے رہ جائے، مقابل کی اکھیوں کے رستے دل میں اُترنے کا قصد ہی نہ کرے، توپھر بےشک ’’چاہت کا چاہے میرے علاوہ بھی نام ہو‘‘ ، جیسے کہ ہماری آج کی بزم۔
ذرا دیکھیے تو ویسٹرن اسٹائل پہناووں نے بھی کیا قیامت ڈھا رکھی ہے۔ مختلف رنگ و انداز کی جینز کے ساتھ کہیں انرشرٹ، جینزفیبرک جیکٹ کا جلوہ ہے، تو کہیں فُل سلیوز ٹی شرٹ کے ساتھ لیدر جیکٹ کی ہم آہنگی۔ ہاف سلیوز کی چوخانے پرنٹ شرٹ ہے، تو خُوب صُورت کٹس کے ساتھ منفرد انداز ٹی شرٹ بھی۔ اور تو اور مردانہ اسٹائل کوٹ کی ناولٹی بھی موجود ہے، جب کہ تمام ہی پہناووں کے ساتھ کہیں ہیڈ بینڈ، کہیں کراؤن ریپڈ، تو کہیں ٹربن اسٹائل اسکارفس سے بھی رنگ و انداز میں خاصی جدّت و نُدرت پیدا کی گئی ہے۔
خدا خدا کر کے موسمِ سرما نے چَھب دِکھلا ہی دی ہے، تو جیسےجی چاہے، بن سنور لیں، اور اگر ہماری بزم سے کچھ منتخب کرتی ہیں، تو پھرکہیں سے یہ سُننے کو بھی مل سکتا ہے ؎ سرما گھلا کے آنکھوں میں نکلا نہ کیجیے۔