• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کا مستقل رکن بننے کا خواہشمند ہے۔ بھارت اس بات کا آرزومند ہے کہ وہ اس خطے میں علاقائی رہنما کے طور پرسامنے آئے اور اس کی یہ حیثیت تسلیم کی جائے لیکن یو این سیکورٹی کونسل کا مستقل رکن بننے سے پہلے اقوام عالم کو علاقے میں بھارت کے شرانگیز اور انسانی حقوق کے منافی کردار کو ضرور دیکھنا چاہئے۔ بھارت کی موجودہ مودی سرکار نے جس طرح انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی ہیں اور روزبروز اس میں اضافہ کرتی جارہی ہے اس کی مثال نہیں ملتی ۔ اقوام متحدہ کو چاہئے کہ وہ انسانی حقوق پامال کرنے، پڑوسی ممالک میں غیر قانونی مداخلت اور شرانگیزی ودہشت گردی کی معاونت اور فروغ دینے پر بھارت کو سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت دینے کے بجائے اس پر سخت پابندیاں لگائے۔

پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے اگر نریندر مودی کو گجرات کا قصائی کہا ہے تو اس میں غلط کیا ہے؟ یہ تو نریندرمودی کا خطاب ہے کہ انہوں نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں بابری مسجد کے معاملہ پر جس طرح شیطانی گروہ آر ایس ایس کے بلوائیوں کے ذریعے مسلمانوں کا قتل عام کرایا تو مودی کو اور کونسا خطاب دیا جائے؟ واضح ہوچکا ہے کہ بھارت کو سیکولر ریاست کہنا بالکل غلط ہے۔حقیقت میں بھارت سیکولر نہیں بلکہ بدمعاش ریاست ہے جو مذہبی امتیاز کی بنیاد پر مسلمانوں ،سکھوں،اور عیسائیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کررہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر پر سراسر ناجائز اور غاصبانہ قبضہ کررکھا ہے۔ بھارت پڑوسی ممالک کیلئے پریشانیاں پیدا کرنے اور علاقے میں امن وچین کو برباد کرنے کا باعث ہے۔ بھارت مکروہ عزائم کے مدنظر پڑوسی ریاستوں کے اندورنی معاملات میں غیر قانونی اور ناجائز مداخلت گزشتہ پچاس سال سے کرتا آرہا ہے۔ بھارت نے سابق مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی، سری لنکا میں تامل ، نیپال اور بھوٹان میں سیاسی جماعتوں، افغانستان میں داعش اور تحریک طالبان پاکستان اور پاکستان میں انار کسٹوں کی ہر طرح سے معاونت وحمایت کی۔

بھارت نے پاکستان اور افغانستان کو غیر مستحکم کرنے کی ہر طرح سے کوششیں کیں۔ افغانستان میں دہشت گردوں کے ساتھ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را ‘‘ کا گٹھ جوڑ، پاکستان اور قطر کے ذریعے پکڑے گئے جاسوس جن میں بھارتی بحریہ کے افسر بھی شامل ہیں، پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونا اور ٹی ٹی پی وآئی ایس کے پی کی معاونت وحمایت اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے کہ بھارت دہشت گرد ریاست اور دہشت گردی کا منبع ہے۔ اسرائیل جو کچھ فلسطین میں کررہا ہے بھارت وہی کچھ مقبوضہ کشمیر میں کررہا ہے۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ بھارت اور اسرائیل نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بے اثر اور مفلوج کررکھا ہے کیونکہ تمام تر قرار دادوں، پاکستان کی طرف سے مسلسل احتجاج اور توجہ دلانے اور تمام تفصیلات وشواہد کے ساتھ جو ڈوزئیر پیش کیا ہے اس پر عالمی ادارے کی طرف سے بلاجواز خاموشی سے ثابت ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ ابھی تک مقبوضہ کشمیر میں ان قراردادوں کو نافذ کرنے اور علاقہ میں امن دشمنی پر بھارت کے خلاف اقدامات سے قاصر ہے۔ بھارت کی طرف سے آرٹیکل 370A اور آرٹیکل35کی منسوخی، حلقوں کی حدبندی اور کشمیر میں ایکولاک ڈائون کے ذریعے آباد یاتی نسل پرستی جیسے اقدامات اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ بھارت ایک بدمعاش ریاست ہے جس کو بین الاقوامی اصولوں اور اخلاقیات کی کوئی پروا نہیں ہے۔

یہ بھی واضح ہے کہ بھارت اور مودی سرکار کے ہندوتوانظریہ اور اس سے منسلک دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتیں وتنظیمیں وی ایچ پی اور آر ایس ایس اقلیتوں کیلئے مستقل خطرہ ہیں۔ مسلمانوں، عیسائیوں اور دلتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے نفرت انگیز جرائم اور ریاستی مشینری کے ذریعے مساجد اور گرجاگھروں کو غیر قانونی وناجائز طور پر مسمار کرنا اس بات کی واضح نشاندہی کرتا ہے کہ بھارت اندرونی طور پر ناکام ہورہا ہے اور تیزی کے ساتھ فاشسٹ ہندو ریاست بن رہا ہے۔ مودی سرکارذات پات، مذہب اور قومیت کی بنیاد پر انسانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کررہی ہے۔ انتہا پسند ہندو غنڈوں کو بی جے پی سرکار کی ہر طرح مدد اور سرپرستی حاصل ہے۔ بھارت میں یورینیم کی کھلے عام خریدوفروخت اور بینکوں کے ذریعے دہشت گردوں کورقوم کی فراہمی دنیا ابھی بھولی نہیں ہے۔ بھارت کو افریقی ودیگر ممالک کو جعلی ادویات اور جعلی ویکسین کی برآمد پر بھی کوئی شرمندگی نہیں ہے۔ بھارت کوآزادی صحافت واظہار رائے کی فہرست میں نیچے رکھنے اور سماجی دشمنی ، بھوک اور غربت کی فہرست میں سب سے اوپر رکھنےپر بھی کوئی احساس وشرمندگی نہیں ہے۔ غیر ملکیوں کے لئے بھارت سب سے خطرناک ملک قرار دیاگیا ہے۔یہ ’’ اعزاز‘‘ بھی بھارت ہی کو حاصل ہے۔ معتبر بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اور اداروں کی رپورٹس سے اس خدشے کو تقویت ملتی ہے کہ مودی حکومت کی نگرانی میں مسلمانوں کی منظم نسل کشی کے بہت امکانات ہیں، ان تمام حقائق کو عالمی طاقتیں ضرور مد نظر رکھیں۔

تازہ ترین