سچ کی اسکرین پر چیئرمین تحریک انصاف کا خاکہ کہاں بنتا ہے؟
یہ سوال متنازع نہیں ، کم از کم مکمل طور پر نہیں ، تاہم اُن کا مطلب کیا ہے اورحقیقت کیا ہے اس کی کھوج میں بلاغت تشویش کا شکار ضرور ہوجاتی ہے ۔ اگر وہ سوچتے ہیں کہ آج پاکستانی سیاست کا سب سے بڑا مسئلہ اس کی زہریلی آلودگی ہے تو ٹھہریں، انتظار کریں، ابھی اصل بری خبریں آپ نے سننی ہیں ۔
اس وقت قطبیت اور ایک کے فائدے میں دوسرے کے نقصان کے سیاسی میزان میں ہماری تقسیم کا شکار عوام کو زبردستی ایک کشمکش کا شکار کیا جارہا ہے ۔ آج قومی گفتگو کا موضوع قومی انتخابات اور صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل ہے اور یہ کہ ان نام نہاد اہمیت کے حامل موضوعات پر بات چیت کرنے کیلئے کون کس سے کب اور کہاں ملاقات کررہا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری سیاسی کائنات اب سے شروع ہوکر اگست ، ستمبر یا اکتوبر میں تحلیل ہوجائے گی۔ اس کے بعد عالم غیب کی خبریں کس کے پاس ہیں؟
لیکن یہ وہ ہے جو کچھ ہم جانتے ہیں ۔ ہمارے علم میں ہے کہ صدر عارف علوی شٹل ڈیموکریسی سے کچھ نتیجہ برآمدکرنے کی کوشش میں ہیں ۔ عمران خان کی کوشش ہے کہ سیاسی قلابازیوں کا کوئی واضح نتیجہ سامنے آئے ۔ وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی بھی ممکنہ کوشش میں ہیں کہ اپنے مخلوط حکومت کے قائد کو قائل کرلیں کہ اسمبلیوں پر ہتھوڑا چلانے سے گریز کیا جائے ۔ ہمہ وقت یہ سہ جہتی جادوگری کسی بھی شخص کی توجہ بٹا سکتی ہے اگرچہ ڈیجیٹل دور میں جینے والے شخص کی توجہ کا دورانیہ پہلے ہی بہت مختصر ہے ،وہ باخبر ہونے کے باوجود شاید نہ جان پائے کہ اس کھوکھلے اور سطحی بحران کی تہہ میں کیا ہے؟
اس کی تہہ میں کیا ہے اس کے لیے ہم ’’اسکوائر میگزین‘‘ کے ایک مصنف سے دو پیراگراف مستعار لیتے ہیں ، وہ یقینا مختلف قارئین کے لیے لکھ رہا تھا لیکن حالات و واقعات میں مماثلت پائی جاتی تھی :
’’چنانچہ اگر آپ نہیں جانتے کہ سچ کیا ہے تو آپ جو مرضی کہہ ڈالیں، یہ جھوٹ نہیں ہوگا۔ ‘‘
یا ’’سچ یہ ہے کہ آپ جو بھی کریں بس اس پر یقین کرنیوالے کافی لوگ موجود ہوں ۔ حقیقت کا زاویہ اپنے ضروریات اور خواہشات کی سمت مڑ سکتا ہے ۔ ‘‘
اپنے اردگرد دیکھیں، پی ٹی آئی چیئرمین کے بیانیے کا ہر پہلو سچائی کی روشنی پڑتے ہی تحلیل ہوگیا۔ 'حکومت کی تبدیلی کی نام نہاد امریکی سازش کے خیالی تصور سے لیکر پی ٹی آئی کی سوچ سے ہم آہنگ ڈیلی میل پر وزیر اعظم شہباز شریف کے خلاف وحشیانہ الزامات، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے خلاف شیطانی الزامات،ارشدشریف کے افسوس ناک قتل کے بعد فوجی قیادت کی طرف انگشت نمائی، تحریک انصاف کے چیئرمین کا ہر دعویٰ دُھول چاٹنے پر مجبور ہوا۔
لیکن یہاں خطرے کی سرخ جھنڈی یہ ہے کہ جھوٹاثابت ہونے والے اس سودے کو بیچنے والے کو پتہ تھا کہ یہ جھوٹ ہے لیکن اس جھوٹ فروش نے ان سب کو سچائی کے طور پر اس یقین کے ساتھ پیش کیا کہ یہ سچائی اس کا کچھ نہیں بگاڑ پائے گی ۔ جھوٹ کی یہ چٹان سچ کے دھارے کا رخ بدل دے گی اور اس کے لیے زبردست فائدے کا باعث بنے گی ۔
وہ اس لیے یہ سب کر سکتا ہے کہ اس کی سیاست ایک ایسے دور میں پنپ رہی ہے جب جذبات سیاسی محرک کے طور پر حقیقت پر غالب آرہے ہیں۔ جھوٹ جذبات کو متحرک کرتا ہے۔ بڑے جھوٹ ایک برفانی تودےکو متحرک کرتے ہیں، یہ تودہ راستے میں آنے والی ہر حقیقت کو روند کررکھ دیتا ہے۔ اس کا بڑھتا ہوا حجم اس کی رفتار ، یعنی تباہی ، میں اضافہ کرتا ہے ۔ یہ صورت حال تحریک انصاف کی حمایت کی بنیادمیں دیکھی جاسکتی ہے ۔ ان کے کندھوں پر کسی حقیقت یا سچ کو ثابت کرنے کا کوئی بوجھ نہیں ۔ جو بھی بوجھ محسوس ہو، پارٹی قیادت کی مہارت اسے چابک دستی سے ٹال دیتی ہے جیسا کہ امریکی سازش کی دیومالائی داستان کے ساتھ کیا گیا اور ایسا اس دور میں نہایت سہولت اور ڈھٹائی کے ساتھ کیا گیا جو معلومات کا دور ہے ۔ اس کےلیے مندرجہ حربے آزمائے گئے :
پہلا، کسی بھی واقعے سے جھوٹ کو کشید کریں۔ دوسرا، اسے کسی پرکشش نظریے کے لبادے میں لپیٹ کر پیش کریں ۔ اس پر من پسند حقائق کی ملمع کاری بے حد کارگر ثابت ہوتی ہے ۔ تیسرا، جھوٹ پر مبنی تھیوری سے مظلومیت کا تاثر ابھاریں اور من پسند افراد اور اداروں کو مورد الزام ٹھہرائیں ۔ چوتھا، پارٹی کے تمام اثاثوں کوجھوٹ کے دائرے میں لے آئیں اور انہیں باہم مربوط کرتے ہوئے ایک پلیٹ فارم تشکیل دیں ۔ پانچواں، جھوٹ کو لامتناہی طور پر دہراتے جائیں ۔ چھٹا، جھوٹ کو سچ قرار دیں۔
لیکن تخیل شدہ سچائی کے بارے میں اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ اصل بیچنے والوں کے ذریعہ تخلیق کردہ متبادل حقیقت کے بلبلے کے اندر ایک سمجھی ہوئی سچائی کے طور پر موجود ہے۔ پارٹی کے حامی اس بلبلے کے اندر یہ دکھاوا کر رہے ہیںکہ یہی حقیقی دنیا ہے۔ اس خول میں موجود وہ اپنے اجتماعی عقائد کو اس توثیق کے ذریعے تقویت دیتے ہیں جو ایکو چیمبر کے اندر رہنے سے حاصل ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ یہ بلبلے جھوٹ کی نرسری کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جو بیچنے والے کے بڑے جھوٹے سے جھوٹ کی خوراک حاصل کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا الگورتھم جھوٹ کو بڑے جھوٹ میں پرورش دیتا ہے۔
یہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے اور یہ ان بنیادوں کو کمزور کر رہا ہے جن پر ہمارا معاشرہ استوار ہے۔ اگر آج ہمیں ایک حقیقی اجتماعی چیلنج درپیش ہے تو وہ انتخابات اور تحلیل کے وقت کے بارے میں دنیاوی خدشات نہیں ہیں بلکہ یہ خدشات ہیں کہ منظم جھوٹوں کے سیلاب کو کیسے پلٹایا جائے جو ہماری سیاست کو تیزی سے پہاڑ کے کنارے کی طرف لے جا رہے ہیں اور ان لوگوںکو کس طرح پیچھے ہٹانا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ مقبولیت کی لہر پر سوار ہو کر اقتدار حاصل کر سکتے ہیں، جو چھوٹے اور بڑے کے دھماکہ خیز کاک ٹیل کے ذریعے ہوا ہے جو متبادل حقیقت کے اندر زور سے گونجتی ہےاور شاید آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ محض انتخابی معرکہ ہے ۔