• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کو 2025ء تک پانی کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، ماہرین

پاکستان کو 2025ء تک پانی کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، فائل فوٹو
پاکستان کو 2025ء تک پانی کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، فائل فوٹو

ماہرین نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان کو 2025ء تک پانی کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

آغا خان یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل ہیلتھ اینڈ ڈویلپمنٹ کے بانی ڈائریکٹر ڈاکٹر ذوالفقار اے بھٹہ نے منگل کو پاکستان میں پانی کی حفاظت اور غذائیت کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے پر زور دیا ہے۔

ڈاکٹر ذوالفقار اے بھٹہ نے’کلائیمیٹ اینڈ واٹر ریلیٹڈ چیلنجز اِن پاکستان: ٹینجیبل سلوشنز‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پانی اور غذا دونوں ایک دوسرے پر منحصر ہیں، اس لیے کسی ایک کے بغیر دوسرے کو منظّم نہیں کیا جا سکتا۔

اُنہوں نے کہا کہ پانی کی کمی بھی ملک کی ترقی کے لیے غذائیت جتنا ہی بڑا خطرہ ہے، 2016ء تک پاکستان میں ہر فرد کے لیے صرف 1,000 کیوبک میٹر پانی بچا تھا، جو کہ بنیادی ضرورت ہے۔

اس دو روزہ کانفرنس میں قومی اور عالمی سائنسدانوں، پالیسی مشیروں، ماہرین، صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے موسمیاتی تبدیلی کے عہدیداروں کو ایک جگہ مدعو کیا گیا تاکہ اس کے بارے میں اپنے شواہد پر مبنی خیالات کا اشتراک کیا جائے کہ ملک میں پانی کی حفاظت اور لوگوں کی اچھی صحت کو کیسے ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

اس کانفرنس کا انعقاد آغا خان یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل ہیلتھ اینڈ ڈویلپمنٹ اور اقوام متحدہ کے سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ سلوشنز نیٹ ورک کے قومی مرکز نے کیا۔

ماہرین نے کانفرنس میں اس بات کا اعادہ کیا کہ پانی کی کمی پاکستان کی پائیدار ترقی اور اقتصادی ترقی کے لیے سنگین خطرہ بن چکی ہے۔

سطحی پانی کے علاوہ، پاکستان کے زیر زمین پانی کے وسائل اور بنیادی طور پر ملک میں آبپاشی کے لیے پانی کی فراہمی کے آخری ذخائر اپنی شدید حد سے تجاوز کر گئے ہیں۔

ماہرین کے مطابق اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو پاکستان کو 2025ء تک پانی کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس کانفرنس میں موجود میسیچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے پروفیسر جیمز ویسکوٹ نے موسمیاتی تبدیلیوں اور پاکستان کے سندھ طاس میں پانی کے سنگین مسائل کے بارے میں بھی بات کی۔

انہوں نے 2050ء تک بالخصوص زیریں سندھ طاس میں سیلاب اور نکاسی آب کے مسائل میں اضافے کے شدید خدشات کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں تعمیر نو کے لیے ایسے جرات مندانہ اور عملی نقطہ نظر کی حمایت کرنی چاہیئے، جس میں پانی اور آب و ہوا کے تحقیقی نیٹ ورکس اور انڈس بیسن ماڈلز کے ساتھ صحت اور بہبود بنیادی طور پر شامل ہے۔

کراچی اوبران لیب سے کانفرنس میں شریک ڈاکٹر نوشین ایچ انور نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور ہیٹ ویوز پر قابو پانے کے لیے اہم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ 

اُنہوں نے کہا کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے اور موافق بنانے کے لیے پاکستان کو سستی اور پائیدار توانائی کی ضرورت ہے۔

ماہرین نے بتایا کہ ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ کے مطابق پاکستان کا پانی کی کمی کے شدید خدشے سے دوچا دنیا کے 17 ممالک میں 14 واں نمبر ہے لیکن یہ پانی کی کمی کا یہ خدشہ ملک مین پانی کی حفاظت کو یقینی بنائے جانے کے لیے صرف ایک چیلنج کی طرح ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر انتظامیہ بہتر اقدامات کرے تو صورتحال پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

بالکل اسی طرح جیسے سعودی عرب اور نمیبیا سمیت دنیا میں سب سے زیادہ پانی کی کمی کا سامنا کرنے والے کچھ ممالک نے مناسب انتظام کے ذریعے اپنے اپنے ملکوں میں پانی کی فراہمی کو مؤثر طریقے سے محفوظ کیا ہے۔

واضح رہے کہ اس کے باوجود پاکستان کا انحصار ایک ہی دریا اور ناقابل اعتبار پانی کے بنیادی ڈھانچے پر ہے، ملک کا تقریباً 96 فیصد میٹھا پانی زراعت کے لیے استعمال ہوتا ہے اور یہ شعبہ 2021ء میں ملک کی جی ڈی پی کا تقریباً 23 فیصد رہا۔ 

قومی خبریں سے مزید