چند دن قبل کسی نے مجھے واٹس ایپ پر ایک ویڈیو کلپ فارورڈ کیاجس میں پڑوسی ملک کے مشہور موٹیویشنل اسپیکر جسپال ایک تقریب کے شرکاء کو جدید کاروباری کارپوریٹ ورلڈکے تناظر میں گروتھ،ترقی اور کامیابی کے بارے میں لیکچر دے رہے تھے، نہایت دلچسپ انداز میں ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی کارپوریٹ ادارے کا ٹرن اوور (شرح آمدنی)اگربڑھ جاتی ہے تو یہ گروتھ کہلاتی ہے لیکن اگراس بڑھوتری کو اخلاقیات، ایمانداری اور سماجی احترام جیسے مثبت اخلاقی پہلوؤں سے نتھی کیا جائے تو یہ ترقی کہلاتی ہے اوراگر ترقی کے سفر میں انسانیت اور روحانیت کومقدم رکھا جائے تو اسے کامیابی کہا جاتا ہے۔ ایک منٹ کی اس مختصر متاثرکُن ویڈیو نے مجھے ایک کتاب یاد دلا دی جس میں پڑوسی ملک کے مصنف رادھا کرشنن پلائی نے سرزمین پاکستان ٹیکسلا میں ہزاروں سال قبل جنم لینے والے عظیم فلسفی کوٹلیہ چانکیہ کی تعلیمات کو دورِجدید کی کارپوریٹ دنیا سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے، ایمازون پرآن لائن دستیاب کتاب 'کارپوریٹ چانکیہ'کو تین سیکشن میں تقسیم کیا گیا ہے، لیڈر شپ، مینجمنٹ اور ٹریننگ۔ مصنف کے مطابق قدیمی فلسفی چانکیہ کےبتائےگئے اصولوں پرعمل جدید دنیا کے کاروباری اداروں میں آگے بڑھنے کیلئے ضروری ہے، کتاب میںمختلف کاروباری سلطنتوں کا حوالہ دیکر ایک ٹیم لیڈر کی دوراندیشی، وژن اور حالات کا موثر مقابلہ کرنے کی اہمیت پر زور دیاگیا ہے، کتاب کا پہلا ایڈیشن 2010ء میں شائع کیا گیا تھا جس نے مختصر عرصے میں سب سے زیادہ فروخت ہونے کے ریکارڈ قائم کردیے ، یہ منفرد کتاب آج بھی دنیا بھر میں کارپوریٹ دنیا میںدیرپا ترقی کرنے کے خواہشمند پروفیشنلز، بزنس لیڈرز اور مینجمنٹ سائنس کے اسٹوڈنٹس میں یکساں مقبول ہے۔اگر کارپوریٹ ورلڈ کے تناظر میں دیکھا جائے تو کم و بیش ہر کامیاب ملٹی نیشنل ادارہ چانکیہ جی کے بتائے گئے رہنما اصولوںپر عمل پیرا نظر آتا ہے، کسی بھی ادارے کا لیڈر ایک حکمراں کی مانند ہوتا ہے جس کی کامیابی کا راز اس کے قابل اعتماد ٹیم ممبرزہوتے ہیں، کارپوریٹ اداروں کیلئے ہر محاذ اہمیت کا حامل ہے، ایک طرف خارجہ محاذ پر بیرونی قوتوں بشمول حکومتی پالیسیوں اور کاروباری حریفوں پر نظر رکھنا ضروری ہے تو داخلی استحکام کیلئے ملازمین کی خوشحالی اور سازشی شرپسند عناصر کی سرکوبی کو مدنظر رکھا جائے۔ عظیم فلسفی چانکیہ کی ہر موقع پر کارآمدنصیحت 'دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے'کے تحت کاروباری ادارے اپنے مشترکہ مفادات کے حصول کیلئے جوائنٹ وینچرز اور باہمی حکمت عملی کاتعین کرتے ہیں۔ان کے خیال میں کارپوریٹ دنیا میں کسی بھی بزنس پروجیکٹ کی کامیابی کیلئے سرمائے کی موجودگی بہت ضروری ہے، جو ادارہ اقتصادی طور پر جتنا مستحکم ہوتا ہے، وہ مارکیٹ میں اپنی جگہ زیادہ یقینی بنانے کے قابل ہوجاتا ہے، زمانہ قدیم میں مستحکم معیشت کی حامل ریاست پڑوسی ریاستوں پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجایا کرتی تھی تو آج ملٹی نیشنل ادارے اقتصادی حیثیت کی بدولت عالمی امور پر اثرانداز ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں، ایک کامیاب بزنس لیڈر کی نشانی ہے کہ وہ اپنے ادارے کو مالی طور پر مضبوط کرنے کیلئے مسلسل کوشاں رہے۔ ان کے مطابق معاشی سرگرمیوں کا مقصد عوام کا استحصال نہیں بلکہ فلاح و بہبود ہونا چاہئے، منافع کی شرح کم ترین جبکہ خریداروں کی تعداد وسیع تر ہونی چاہئے، پبلک ڈیلنگ کرنے والے اسٹاف کا رویہ کسٹمرز سے دوستانہ ہونا چاہئے، عملے کی جانب سے کام چوری، کوتاہی، غفلت اور بدتمیزی کا مظاہرہ ادارے کی ساکھ مجروح کرسکتا ہے جبکہ نرم مزاجی اور دوستانہ رویہ باہمی اعتماد کو بحال رکھنے میں بہت کارآمد ثابت ہوتا ہے۔چانکیہ کے مطابق ٹیم کے ہر چھوٹے بڑے ممبرکی رائے اہمیت کی حامل ہے کیونکہ ایک چھوٹی سی لاٹھی طویل القامت ہاتھی کو قابو میں رکھ سکتی ہے، ایک چھوٹا سا چراغ گھپ اندھیرے کو دور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے،ایک سخت پہاڑ کو چھوٹے سے ہتھوڑے سے توڑا جا سکتا ہے، کاروباری میٹنگ میں پیش کیا جانے والا ایک معمولی آئیڈیامستقبل میں بہت بڑاانقلاب پرپا کرسکتا ہے، کامیابی ایک دم نہیں مل جاتی بلکہ اس کیلئے مرحلہ وار جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور بے پناہ صبر وتحمل سے کام لینا پڑتا ہے۔ملازمت پیشہ طبقے کیلئے ضروری ہے کہ جس طرح ایک بزنس مین کی طاقت اس کا سرمایہ ہوتا ہے اور ایک ملک کی طاقت اس کی فوج ہوتی ہے، اسی طرح ایک ملازمت پیشہ فرد کی طاقت اس کی صلاحیتیں، قابلیت اور وفاداری ہوتی ہے، اگر ایک اسٹاف ممبر اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو اپ ڈیٹ کرتے ہوئے اخلاقی اصولوں پر استوار کرلے تو وہ ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کرسکتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)