پاکستان پیپلز پارٹی پاکستان کی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس نے جمہوریت اور انسانی حقوق کے حوالے سے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کو فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق نے ایک قتل کے جھوٹے مقدمے میں تختہ دار پر لٹکا دیا۔ ان کی شہادت کو آج تک ’’عدالتی قتل‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اسی طرح ان کے دونوں صاحبزادوں میر شاہنواز بھٹو اور میر مرتضیٰ بھٹو کی موت بھی ریاستی جبر کے نتیجے میں ہوئی جبکہ ان کی صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی راولپنڈی کے لیاقت باغ میں 27دسمبر 2007کو ایک جلسہ عام سے خطاب کے بعد دن دہاڑے شہید کر دیا گیا۔ یوں 1979ء سے لیکر 2007تک تقریباََ 28سال کے اندر بھٹو خاندان کے تمام افراد کو ایک ایک کر کے صفحہ ہستی سے مٹا نے کی کوشش کی گئی ۔ گو جمہوریت مخالف سازشی طاقتوں نے جسمانی طور پر تو انہیں ختم کر دیا مگر وہ سیاسی طور پر انہیں کبھی ختم نہ کر سکیں اور تمام تر ریاستی جبر اور سازشوں کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی آج بھی زندہ ہے۔ صرف بھٹو خاندان ہی نہیں بلکہ اس خاندان میں شامل ہونے والے آصف علی زرداری نے بھی اپنی زندگی کے گیارہ سال جھوٹے مقدمات کے تحت قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے گزارے لیکن کبھی ریاستی جبر کے سامنے سر نہیں جھکایا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی کانٹوں بھری سیاسی زندگی کا آغاز صرف چوبیس برس کی عمر میں اس وقت کیا جب 5جولائی 1977ء کو پاکستان کے تیسرے فوجی ڈکٹیٹر نے شب خون مار کر پاکستان کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم اورمحترمہ کے والد جناب ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹ دیا اور ملک پر خوفناک آمریت کی طویل سیاہ رات مسلّط کر دی، حالانکہ صرف 6سال پہلے پاکستان جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ خان کی فوجی آمریت اور مشرقی پاکستان میں ملٹری ایکشن کی وجہ سے دولخت ہو چکا تھا۔ ملک ٹوٹنے کے دلخراش صدمے کے بعد توقع یہی کی جارہی تھی کہ آئندہ کوئی طالع آزما ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائے گا اور بقیہ پاکستان جمہوری اصولوں کے مطابق چلایا جائے گا لیکن یہ خوش فہمی جلد مایوسی میں تبدیل ہوگئی۔ حالانکہ اس وقت جناب ذوالفقار علی بھٹو کی ولولہ انگیز قیادت میںپاکستان ہر لحاظ سے ترقی کے راستے پر گامزن ہو چکا تھا۔25سال کے بعد پاکستان کو پہلا متفقہ جمہوری آئین ملا جو بذاتِ خود ایک بہت بڑا کارنامہ تھا۔ 1971کی جنگ میں شکست خوردہ قوم ایک نئے عزم کے ساتھ بیدار ہوئی ۔ بھارت سے مغربی پاکستان کے پانچ ہزار مربع میل علاقے اور نوے ہزار جنگی قیدیوں کی واپسی ہوئی اور رفتہ رفتہ پاکستان ایک مرتبہ پھر اپنے پائوں پر کھڑا ہوگیا ۔ 1974میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعدجناب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا آغاز کردیا جس کے خلاف انہیں امریکہ کے اس وقت کے وزیرِ خارجہ ہنری کسنجرنے عبرت کا نشان بنانے کی دھمکی بھی دی اور جناب بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے میں مبینہّ امریکی سازش کی ایک وجہ پاکستان کا نیو کلیئر پروگرام بھی تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سب سے پہلے جناب بھٹو کے دورہ شملہ کے موقع پر منظرِ عام پر آئیں، پھر جناب ذوالفقار علی بھٹو کی اسیری سے لیکر شہادت تک انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی اور مردوں کے غلبے والے مذہبی معاشرے میں ایک خاتون ہونے کے باوجود جس جرات ، دلیری اور وقار کے ساتھ وقت کے بدترین آمر کے خلاف جمہوریت کی جنگ لڑی اسکی مثال مسلم دنیا کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی ۔ جنرل ضیاء کے 11سالہ دورِ جبر میں محترمہ اور اُن کے خاندان کے خلاف کوئی ایسا حربہ نہیں تھا جو استعمال نہ کیا گیا ہو کہ وہ راستے سے ہٹ جائیں یا جمہوریت کی بحالی کی تحریک سے دست بردار ہو جائیں مگر اس بہادر خاتون نے ہر تکلیف برداشت کی لیکن عوامی حاکمیت کی جدوجہد ترک نہیں کی بالآخر وہ مسلم دنیا کی پہلی نوجوان ترین حکمران بننے میں کامیاب ہوگئیں مگر ابھی ان کی جدوجہد ختم نہیں ہوئی تھی۔ نوے کی دہائی میں مقتدر حلقوں نے اقتدار کی میوزیکل چیئر کا کھیل جاری رکھااور پاکستان کے چوتھے فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے جب نواز شریف کو بھی جلاوطن کردیا تو محترمہ ،جو پہلے سے ہی جلا وطنی کی زندگی گزار رہی تھیں، نے اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف میاں نواز شریف کے ساتھ میثاقِ جمہوریت کے نام سے ایک معاہدہ کیا کہ آئندہ سے پاکستان کو فوجی آمریت میں دھکیلنے کی ہر کوشش کا مل کر مقابلہ کیا جائے گا اور پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک جمہوری ملک بنایا جائے گا لیکن جمہوریت دشمن قوتوں نے 27دسمبر 2007کو محترمہ کو شہید کرکے ان کے مشن کو ادھورا کردیا مگر ان کے بعد بی بی شہید کا حقیقی جمہوریت اور مفاہمت کا ادھورا مشن جناب آصف علی زرداری اور ان کے فرزند جناب بلاول بھٹو زرداری بڑی جانفشانی سے پورا کر رہے ہیں۔