اسلامی جمہوریہ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی مسلسل جدوجہد اور قانونی جنگ کا ثمر ہے، جس میں ان کا بھرپور ساتھ تحریکِ پاکستان کے دیگر قائدین نے بھی دیا۔ قائد اعظم نے اپنی سیاسی و قانونی بصیرت کا مظاہرہ کرکے برِصغیر کے نقشے پر ایک آزاد مملکت پاکستان کا قیام ممکن کردکھایا۔ انسانی تاریخ میں بہت ہی کم ایسی شخصیات گزری ہیں، جو قو ل و فعل کی عملی تصویر ہوں۔
قائد اعظم محمد علی جناح ؒہمیشہ وقت کی پابند ی کے اصولوں پر کاربند رہے اور انھوں نے اس پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ ایمانداری اور دیانتداری قائداعظم کی لافانی شخصیت کا خاصہ تھی اور وکالت جیسے پیشے میں جہاں نامور وکلاء زائد آمدنی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے، وہیں قائد اعظم اپنے اصولوں کے مطابق ایک پائی زیادہ وصو ل نہیں کرتے تھے۔ قائد اعظمؒ اپنے عہدے اور پروٹو کول کا نہ خود فائدہ اٹھاتے تھے اور نہ ہی دوسروں کو اس کا موقع دیتے تھے۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمہ گیر شخصیت تاریخ میں روشنی کے مینار سے تعبیر کیے جانے کے لائق ہے۔ ان کی جدجہد اور اصول پسندی نے تاریخ کے دھارے کا رُخ بدل کر رکھ دیا۔ عزم مصمم، استقلال اور جرأت مندی ان کے اوصاف میں شامل تھی، جس نے انہیں اس قدر توانا کیا کہ اُس دور کی سب سے بڑی سپر پاور اپنی ضد اورہٹ دھرمی سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئی۔
قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت نے اسلامی نظریاتی مملکت کا احساس برصغیر کے مسلمانوں میں اس طرح جاگزیں کیا کہ ان کے دلائل کے سامنے کوئی نہ ٹھہر سکا۔ وہ انتہائی ہوشیار، بیدار مغز اور اصول پرست تھے۔ انہوں نے اس امر کو سمجھ لیا تھا کہ مسلمان ہونے کے ناطے حق و باطل دونوں سے رشتہ استوار نہیں رکھا جاسکتا۔
قائد اعظم کی شخصیت سے صرف برِصغیرکے مسلمان اورہندوہی نہیں بلکہ انگریز تک متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے۔ وہ برصغیر کے ایک بڑے قانون دان، ہندو مسلم اتحاد کے سفیر، آئین پسندی کا رجحان رکھنے والے، ایک ممتاز پارلیمانی لیڈر،اعلیٰ ترین سیاستدان، ایک ناقابل شکست حریت پسند سپاہی، متحرک مسلمان رہنما، سیاسی حکمت عملی جیسے اوصاف کی درخشاں مثال اور اپنے عہد کےعظیم قوم سازوں میں سب سے ممتاز رہنما تھے۔
ان کی کثیرالجہت خصوصیات کی حامل شخصیت نے زندگی کے کئی شعبوں میں بہت سی کامیابیاں سمیٹیں۔ بالخصوص قائد اعظم کی قانونی علمیت، قابلیت اور صلاحیت تمام حیثیتوں میں ہمارےسامنے موجود ہے۔ ان کی قانونی قابلیت کے نہ صرف قانون دان بلکہ دوسرے شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے حضرات بھی معترف ہیں۔ مہاتما گاندھی نے لارڈبرکن ہیڈ کو لکھے گئے خطوط میں قائد اعظم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ،’مسٹر جناح اور سرتاج بہادر سپرو بھارت کے دو ہوشیار ترین وکیل ہیں‘۔
قائداعظم محمد علی جناح ؒنے نہ صرف وکالت کے پیشے میں نئی راہیں متعین کیں بلکہ سوچنے اور سمجھنے کے مختلف زاویوں سے اہلِ علم کو روشناس کرایا۔ قائداعظم وکالت کے پیشے میںغیر معمولی ذہانت کے ساتھ ساتھ صبر و تحمل سے کام لیتے تھے۔ نئے مقام اور ناتجربہ کار ی کے باجود اوائل عمری میں بحیثیت پریذیڈنسی مجسٹریٹ ان کا تقرر ان کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ عارضی طور پر جب قائد اعظم کا پریذیڈنسی مجسٹریٹ کی حیثیت سے تقرر ہوا تو اس منصب پر ان کی پندرہ سو روپے ماہانہ تنخواہ مقرر کی گئی تھی۔
قائد اعظم نے اپنی پوری ذمہ داری سے تھوڑے ہی عرصے میں جو خدمات انجام دیں، حکام ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اس عارضی ملازمت کی مدت ختم ہو تے ہی محمد علی جناح سے اصرار کیا گیا کہ وہ بدستور اس منصب پر ذمہ داریاں نبھاتے رہیں مگر انہوں نے یہ پیش کش مسترد کرتے ہوئے بڑےاعتماد سےجواب دیا،’’جناح پندرہ سو روپے ماہانہ نہیں ، روز کمانا چاہتا ہے‘‘۔ اس جملےنے سب کو حیرت میں ڈال دیا لیکن تاریخ نے دیکھا کہ قائد اعظم نے بحیثیت وکیل ہزاروں روپے روزانہ کے حساب سے کمائے۔
قائد اعظم محمد علی جناح پیشہ ورانہ اخلاق پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ انھوں نے زندگی کے کسی بھی موڑ پر پیشہ وارانہ ضابطہ اخلاق کی پابندی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ ان کی چیمبر پر یکٹس کےلیے فیس فی گھنٹہ کے حساب سے ہوتی تھی اور موکل اندازے سے فیس ادا کردیتے تھے۔ بارہا ایسا ہوا کہ اگر موکل کا اندازہ ا ن کی مصروفیت کے اصل وقت سے زیادہ ہوگیا اور اس نے زائد رقم ادا کردی تو قائد اعظم اضافی رقم واپس کردیتے تھے، مثلاً موکل نے چیمبر میں قائد اعظم کو5گھنٹے مصروف دیکھ کر فیس کی ادائیگی کی اور قائداعظم نے اس موکل کا کام صرف ایک گھنٹے میں مکمل کیا تھا تو وہ بقیہ چار گھنٹے کی فیس واپس لوٹا دیتےتھے۔
ان کی زندگی کا کوئی شعبہ اصولوں سے مبرا نہ تھا۔ خود داری اورشرافت ان کے اندر بدرجہ اتم موجود تھی۔ کلائنٹس سے معاملات اور پیشے کا وقار ان کے پیش نظر رہتا تھا۔ کمرہ عدالت میں بھی وہ اصولوں، پیشے کے احترام و وقار، خودداری اور عزت ِنفس کو ہر قیمت پر ملحوظ خاطر رکھتے تھے۔ کئی بار نازک مواقع آئے مگر وہ ہمیشہ احترامِ پیشہ اورعزت ِ نفس اوراپنے اصولوں پر ڈٹے رہے، چاہے انہیں کتنے ہی سنگین نتائج کیوں نہ بھگتے پڑتے۔
ایک بار ایسا ہی ایک نازک موقع ہائیکورٹ میں کسی مقدمے کی پیروی کے دوران آیا، جب قائد اعظم کےاندازِ خطابت میں لہجہ سخت ہوگیا۔ یہ بات جج صاحب کوناگوار گزری، انہوں نے اسی وقت قائد اعظم کو تنبیہہ کی، ’’مسٹر جناح، آپ اس وقت عدالت میں کسی تیسرے درجے کے جج سے مخاطب نہیں ہیں‘‘۔ قائد اعظم نےاس پر تاریخی جواب دیا، ’’جناب، آپ کے سامنے بھی کوئی تیسرے درجے کا وکیل خطاب نہیں کررہا ہے‘‘۔
شیکسپیئر نے کہا تھا،’ ’کچھ لو گ پیدا ہی عظیم ہوتے ہیں اور کچھ لوگ اپنے کاموں سے خود کو عظیم بنا لیتے ہیں‘‘۔ اگر یہ بات قائد اعظم محمد علی جناح کے لیے کہی جائے تو غلط نہیں ہوگی۔ قائد اعظم کی زندگی پیشہ ورانہ ہو یا قائدانہ، ان کی شخصیت کے ہر پہلو سے ایک نستعلیق، انصاف پسند اور وضع دار کردار جھلکتاہے۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ ہمارے محسن اور قوم کے لیے رول ماڈل ہیں۔ زندہ قومیں اپنے محسنوں کو نہیں بھولتیں۔ انہیں نہ صرف ہمیشہ یاد رکھتی ہیں، بلکہ ان کے اصولوں پر عمل بھی کرتی ہیں۔