پلڈاٹ کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں پاکستان میں غیر اعلانیہ آمریت تھی، اس کی وجہ خود عمران تھے، یا انہیں حاصل اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کہنا مشکل ہے۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کی رپورٹ کے مطابق فوجی کمان کی تبدیلی کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں ملوث ہونے کا ثبوت نہیں ملا، اس عدم مداخلت کے فوائد شاید فوری حاصل نہ ہوں، مگر اسٹیبلشمنٹ اگر سیاست سے الگ رہنے کے عزم پر قائم رہے تو جمہوریت میں بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔
پلڈاٹ نے جمہوریت کی حالت زار پر رپورٹ میں لکھا ہے کہ 40 برس میں اسٹیبلشمنٹ نے سیاست دانوں سے مل کر جو چالیں چلیں، وہ اور جمہوری نظام کے ساتھ کھیلا گیا کھیل کُھل کر بے نقاب ہوا۔
اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت نے پارلیمنٹ، سیاسی جماعتوں، عدلیہ، اور بیوروکریسی سمیت تمام اداروں کو مفلوج کیے رکھا، خرابی کے خاتمے کےلیے غیرآئینی کارروائیوں کے خلاف سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔
پلڈاٹ کے مطابق الیکشن کمیشن نے آئینی خودمختاری کا استعمال کیا،ادارے کا سخت الزامات کا مقابلہ کرنا جمہوریت کےلیے امید کی کرن ہے۔
پلڈاٹ نے لکھا کہ نومبر 2022 میں آرمی چیف نے سبکدوش ہوتے وقت کہا کہ اب فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی۔
فوجی کمان کی تبدیلی کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں ملوث ہونے کا ثبوت نہیں ملا، اس عدم مداخلت کے فوائد شاید فوری حاصل نہ ہوں لیکن اگر اسٹیبلشمنٹ سیاست سے الگ رہنے کے عزم پر قائم رہے تو جمہوریت میں بہتری کی امید ہے۔
عمران خان نے بطور وزیراعظم اپنے طرز حکومت کا ذمے دار فوج کو نہیں کہا، لیکن اقتدار جانے کے بعد مانا کہ انہیں فوجی حمایت حاصل تھی، بجٹ منظور کروانے اور چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کےلیے انہوں نے فوج سے حمایت مانگی تھی۔
پلڈاٹ کے مطابق عمران خان کی حکومت تب ختم ہوئی جب فوجی حمایت ہٹالی گئی۔
پلڈاٹ نے لکھا کہ یہ حقیقت ہے کہ اتحادی حکومت فوج کی حمایت کے بغیر اقتدار حاصل نہیں کرسکتی تھی۔