سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے نئے سوالات اٹھادیے۔
نجی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں جو آرمی چیف ہے وہی اسٹیبلشمنٹ ہے۔
انہوں نے استفسار کیا کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے تمام دھڑوں کو کون اکٹھا کررہا ہے؟ کون ہے جو بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کو پیپلز پارٹی میں بھیج رہا ہے؟
عمران خان نے اعتراف کیا کہ میں نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن دے کر غلطی کی، وہ مدت ملازمت میں توسیع کے ساتھ ہی بدل گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ میرے سامنے اپوزیشن کو برا اور کرپٹ کہتے تھے اور خود کو نیوٹر ل کہتے، پیچھے ایجنسیاں پی ٹی آئی کے بندے توڑ لیتیں۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے مزید کہا کہ جنرل باجوہ سے آخری میٹنگ اگست 2022ء میں ہوئی، اس ملاقات میں آرمی چیف نے کہا کہ آپ کے لوگوں کی اوپر فائلیں ہیں۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ جنرل باجوہ نے مجھ سے کہا کہ آپ کے لوگوں کی آڈیوز اور ویڈیوز ہیں، مجھے کہا آپ بھی تو پلے بوائے تھے، جس پر جواب دیا کہ میں نے کبھی خود کو فرشتہ نہیں کہا۔
عمران خان نے یہ بھی کہا کہ جنرل باجوہ نے اُس وقت تک پلان بنالیا تھا کہ عمران خان کا راستہ روکنا ہے، اس وجہ سے ہمیں شروع میں کافی شک تھے، ہمیں سمجھ نہیں آرہا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں تو پتہ ہی نہیں چلا کہ ہو کیا رہا ہے؟ میں جنرل باجوہ کے سامنے اپوزیشن کے احتساب کی بات اٹھاتا، وہ پی ٹی آئی کے بندوں کی فائلوں کی بات لے آتے۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ میں نے پوچھا ہماری ایجنسیز کا یہ کام ہے لوگوں کو بلیک میل کرنے کےلیے فائلیں بنائی جائیں؟ تاکہ ان کو کنٹرول کرسکیں۔
انہوں نے کہا کہ جس کے بعد جنرل باجوہ کہنا شروع ہوگئے، احتساب چھوڑیں، معیشت ٹھیک کریں، آہستہ آہستہ پتہ چلا، ان کا پلان عمران خان کو ہٹانے اور شہباز شریف کو لانے کا تھا۔
عمران خان نے کہا کہ یہ پلان 2021 کی گرمیوں میں بن گیا تھا، اس کے بعد کام شروع ہوگیا تھا، اس دوران کہنا شروع کیا گیا کہ میں جنرل فیض کو آرمی چیف بنانا چاہتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت میں جنرل باجوہ نے حسین حقانی کو ہائر کیا، حقانی کے ساتھ سی آئی اے کا آدمی بھی تھا۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ ان لوگوں نے میرے خلاف امریکا میں مہم چلائی کہ میں واشنگٹن مخالف ہوں، حسین حقانی کی ٹوئٹ بھی ہے، جنرل باجوہ کی تعریفیں کیں۔
انہوں نے کہا کہ حسین حقانی کے ساتھ سی آئی اے کا بھی کوئی آدمی تھا، ہمارے دور میں بطور لوبیئسٹ ہائر ہوا، وہ امریکا میں میرے خلاف کام کررہا تھا۔
عمران خان نے کہا کہ ڈونلڈ لو کا جو معاملہ شروع ہوا وہ ادھر سے نہیں وہ یہاں سے شروع ہوا، عوام میں ہماری مقبولیت دیکھ کر جنرل باجوہ کو پالیسی ریورس کرلینی چاہیے تھی۔
ان کا کہنا تھاکہ مجھے حیرت ہوئی کہ وہ اسی پالیسی پر چلتے رہے اور بجائے تبدیل کرنے کے انہوں نے سختیاں کیں اور ہم پر ظلم کیا۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ ہم پر ہر قسم کا ظلم کیا، مجھےل گا میں کوئی غیرملکی غدار ہوں یا ملک دشمن ہوں، جب آپ کے خلاف ریاست ہوجائے، مجھے پتا ہے جب ریاست کی ساری پاور آپ کے خلاف ہو تو انسان کس طرح گزرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا انصاف کا نظام اس کے بنیادی حقوق کا دفاع نہیں کرتا، مجھ پر جو حملہ ہوا، دو چار دن میں سب چیزیں سامنے آجائیں گی، واضح ہوگیا کہ انہوں نے میرے قتل کا منصوبہ بنایا۔
عمران خان نے کہا کہ میں خود پر حملے کی ایف آئی آر تک رجسٹر نہیں کر سکا، پنجاب میں میری جماعت پاور میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت نےطالبان کی امریکیوں سے بات چیت کرائی، افغانستان میں طالبان سے ہمارے بہترین تعلقات تھے، ہمارا اصل مسئلہ ٹی ٹی پی تھا۔
انہوں نے کہا کہ افغان حکومت ہمارے کہنے پر ٹی ٹی پی پر دباؤ ڈال سکتی تھی، ہم نے کوشش کی، ہمارے مذاکرات چل رہے تھے پھر ہماری حکومت چلی گئی۔
عمران خا نے کہا کہ خارجہ پالیسی کو کبھی کسی کا غلام نہیں ہونا چاہیے، میں یہی کہتا تھا کہ یہ امریکیوں کی جنگ ہے، ہمیشہ کہا کہ افغان مسئلے کا فوجی حل نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو ساری دنیا کے چکر لگاتا رہا، اس کو افغانستان جانا چاہیے تھا، اس حکومت نے کوئی مذاکرات نہیں کیے، آج دہشت گردی آپ کے سامنے ہے۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ امریکی چاہتے تھے کہ ہمارے ذریعے افغانستان میں طالبان کو شکست دیں، میں تو سوچ بھی نہیں سکتا کہ آگے آپ کسی اور کی جنگ میں شامل ہوں۔
انہوں نے کہا کہ آج پاکستان ڈیفالٹ پر کھڑا ہے، ڈیفالٹ کے بعد جو مہنگائی آئے گی اس کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا، مسائل کا حل صرف الیکشن ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے فلیٹ کی منی ٹریل دی، پیسا پاکستان آفیشل بینکنگ چینل سے ملک میں آیا، میں تو حلال کمائی پاکستان لے کر آرہا تھا جبکہ یہ حرام کمائی پاکستان سے باہر بھیج رہے ہیں، میرا ان سے موازنہ کیسے ہوسکتا ہے؟