عشق جُز وقتی کام نہیں ہے، عشق میں تو دل ،دماغ، روح ،بدن، ہر ہر بُنِ مُو حالتِ حضوری میں ہوتا ہے، یک سُوئی ایسی کہ اپنی ذات بھی نظر انداز ہو جاتی ہے، رئیس فروغ فرماتے ہیں ’’عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لئے....ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے‘‘ یعنی عشق میں پارٹ ٹائم لوورز نہیں ہوتے اور کچھ ایسا ہی معاملہ سیاست کا بھی ہوتا ہے، سیاست بھی عشق کی طرح ایک کل وقتی دُھن ہے، سیاست دان مخلص ہو یا مکار صبح شام اپنا رشتہ عوام اور ان کے مسائل سے بحال رکھتا ہے۔دوسرے لفظوں میں آپ یہ کہہ لیجئے کہ سیاست میں بھی پارٹ ٹائم لوورز نہیں ہوتے۔اسی لئے آپ نے ’نیم سیاست دان‘ کی اصطلاح کبھی نہیں سنی ہو گی۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ اس نکتے کی تصدیق کرتی نظر آتی ہے، ماضی میں ہمارا کوئی مرکزی سیاست دان ایسا نہیں رہا جسے پارٹ ٹائم سیاست دان کہا جا سکے، قائدِ اعظم سے بے نظیر بھٹو تک مثالیں ہی مثالیں ہیں۔ بے نظیر کی کل وقتی سیاست تو ہمارے سامنے کی بات ہے، آپ کو یاد ہو گا کہ بختاور بھٹو کی پیدائش کے موقعے پر وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹونے کل ملا کے تقریباً ڈیڑھ دن کی چھٹی کی تھی، اسی طرح جب وہ لندن جلا وطنی کی زندگی گزار رہی تھیں تو صبح شام اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھتی تھیں، وہ پاکستان میں اپنے پارٹی رہنمائوں سے مسلسل رابطے میں رہتیں، انہیں خطوط لکھتیں، لندن میں میٹنگز کرتیں، اپنی کتابوں پر کام کرتیں، مختلف پلیٹ فارمز پر لیکچر دیتیں، میڈیا کو انٹرویو دیتیں یعنی پیہم سیاست کرتیں اور کچھ ایسا ہی معاملہ ہمارے دوسرے سربرآوردہ سیاست دانوں کا رہا ہے۔
اب کچھ ذکر مریم نواز صاحبہ کے طرزِ سیاست کا بھی ہو جائے۔مریم نواز کے ناقدین انہیں کل وقتی سیاست دان تسلیم نہیں کرتے، وہ کسی ماہ سیاست دان ہوتی ہیں، کسی ماہ نہیں ہوتیں، کبھی وہ صبح شام ملک کے طول و عرض میں بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کرتی نظر آتی ہیں، میڈیا میں مسلم لیگ (ن) کے بیانیے کی جنگ کی قیادت کرتی ہیں، جیلیں کاٹتی ہیں اور جبر کے خلاف مدافعت کا سب سے روشن استعارہ قرار پاتی ہیں۔ پھر ایک دن وہ سیاسی منظر سے یوں غائب ہو جاتی ہیں جیسے کبھی تھیں ہی نہیں، جلسے جلوس ختم، میڈیا سے گُم، یہاں تک کہ ان کا اپنا ذاتی ٹوئٹر اکائونٹ بھی گونگا ہو جاتا ہے، اس دوران بحرِسیاست میں طلاطم بھی آتا ہے، بیانیے کی جنگ میں شدت بھی آتی جاتی رہتی ہے، بڑے بڑے واقعات و حادثات بھی گزر جاتے ہیں مگر میڈیا مریم نواز کی زیارت سے یک سر محروم رہتا ہے، اس سارے منظر پر ان کا سایہ بھی نہیں پڑتا، کوئی نہیں جانتا کہ وہ اس مسئلے پر کیا رائے رکھتی ہیں، کوئی رائے رکھتی بھی ہیں یا نہیں، گویا ’السکوت خیر من الکلام‘ کی تفسیر بن جاتی ہیں۔خاموشی اہلِ معرفت کا شیوہ تو ہو سکتا ہے، سیاست دان کا نہیں، صوفیاء کے نزدیک خاموشی باطنی توجہ کی ہم معنیٰ ہوتی ہے، سیاست دان کا یہ معاملہ نہیں ہوتا۔یہی وجہ ہے کہ ماضی میں جب بھی مریم نواز نے اپنی گویائی خود ہی سلب کی تو کسی نے اسے عرفانِ ذات کا سفر قرار نہیں دیا بلکہ اپنے پرایوں نے تخمینہ لگایا کہ ’پسِ پردہ کوئی ڈیل چل رہی ہے‘۔
دوسری طرف، مریم کے وکیل ان کے سیاسی اعتکاف کی وجہ کچھ اور بتاتے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ مریم نواز پچھلے کچھ برسوں میں کئی محازوں پر برسرِ پیکار رہی ہیں، سب سے پہلے تو اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کے ساتھ ان کے نام کے گرد بھی سرخ دائرہ لگا رکھا ہے، اسی لئے ان کے خلاف بے بنیاد مقدمات بھی قائم کئے گئے اور بے ہودہ میڈیا کیمپین کا مرکزی ہدف بھی بنایا گیا، اسی طرح نواز شریف کے سیاسی مخالف مریم کو نواز شریف کا حقیقی سیاسی وارث سمجھتے ہیں اور ان کا ’خاص خیال‘ رکھتے ہیں اور پھر اس سب پر مستزاد شریف خاندان کے داخلی مسائل اور سیاسی وراثت کی رسہ کشی ہے۔مریم سمجھتی ہیں کہ یہ ممکن نہیں کہ پارٹی اور حکومت پر تصرف کسی کا ہو اوران کا کردار عوامی جلسے کرنے تک محدود کر دیا جائے، وہ بھی مجبوری میں ان کی مقبولیت کے پیش نظر۔اس چومکھی لڑائی لڑنے والی کو کبھی کبھی تزویراتی خاموشی بھی اختیار کرنا پڑتی ہے۔مریم کے وکلاء کا استدلال بے وزن تو نہیں ہے مگرنکتہ چینوں کا اصرار اپنی جگہ صائب ہے۔بلا شبہ سیاست بیانیے کا کھیل ہے اور بیانیہ خاموشی سے نہیں بنتا۔ حالات کچھ بھی کیوں نہ ہوں، سیاست دان اسی کے اندر سے اپنے لئے راہ تراشتا ہے یعنی کل وقتی سیاست دان کے لئےکبھی تلاشِ گمشدہ کا اشتہار نہیں دینا پڑتا۔
خیر اب مریم نواز کو پارٹی کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر بنا کر بڑے میاں صاحب نے اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کی ہے۔ توقع ہے کہ اس فیصلے سے مسلم لیگ (ن) کے داخلی تضادات ختم ہوں گے، مریم نواز کو عوامی سطح پر نواز شریف کا سیاسی جانشین مانا جاچکا ہے، اب پارٹی کے اندر بھی ان کی حیثیت کو تسلیم کرنا ہوگا۔ میاں صاحب کچھ عرصے سے اس معاملے میں کسی تذبذب کا شکار نہیں تھے، صرف مناسب موقعے کا انتظار کررہے تھے اور اب جب کہ اسٹیبلشمنٹ غیر سیاسی ہونے کا اعلان کر چکی ہے اور عدالتی فیصلوں کے بعد مریم نواز کے سیاست میں براہ راست حصہ لینے میں کوئی رکاوٹ نہیں رہی، میاں صاحب نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ توقع ہے کہ مریم نواز کے پاس اب جُز وقتی سیاست کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔