(گزشتہ سے پیوستہ)
لاہور کے آخری رائل پوسٹ کے لال رنگ کے لیٹر بکس کا ڈیزائن بہت خوبصورت ہے ۔ اس رائل پوسٹ کے لیٹر بکس کی ہم نے آج سے دس برس قبل تصویر بنا کر روزنامہ جنگ لاہور میں خبر بھی دی تھی۔ ہمارے پاس اس کی اصل تصویر محفوظ ہے، اس لیٹر بکس کے اوپر رائل پوسٹ کے الفاظ درج ہیںجسے رائل میل بھی کہا جاتا تھا۔ ہماری خبر کے بعد وہ رائل پوسٹ کا لیٹر بکس جی پی او میں نصب کر دیا گیا۔کبھی لاہور میں ڈاک، تار اور ٹیلی فون کا نظام انتہائی بہترین تھا ۔ہم نے لاہور کی کئی تاریخی عمارتوں کو نیست ونابود کر دیا۔ لاہور کا پہلا ڈاک خانہ عجائب گھر کے قریب انارکلی چھائونی بیرک میں قائم ہوا تھا۔ میواسکول آف آرٹس (نیشنل کالج آف آرٹس) کے پچھلی طرف ایک بڑی تاریخی بیرک رہی ہے، اس بیرک کو ہم نے کئی مرتبہ دیکھا اور وہاں گئے بھی ہیں۔ ہمارے لوگ ہمیشہ گوروں پر شدید نکتہ چینی کرتے ہیں لیکن ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ اس لاہور میں ولایت سے آنے والے ان گوروں نے ہمیں کیا کچھ دیا۔1849ءمیں اس بیرک میں لاہوریوں کے لئے پہلا ڈاک خانہ قائم کیا گیا تھا، اس سے پہلے لاہور میں باقاعدہ خطوط لکھنے اور بھیجنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملکۂ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی کے سلسلے میں لاہوریوں کے لئے یہ پوسٹ آفس قائم کیا گیا تھا۔ لاہور میں ریلوے اسٹیشن، میاں میر چھائونی، لوہاری منڈی، صدر بازار، کاہنہ کاچھا، شاہدرہ، چوہنگ، بھڈانہ اور موتی بازار میں ڈاک خانے قائم کئے گئے تھے۔ کیا خوبصورت زمانہ تھا کہ ان ڈاک خانوں میں منی آرڈرآفس اور سیونگ بینک بھی ہوا کرتے تھے۔لاہور کینٹ کے اندر دو ڈاک خانے ہیں ایک شیر پائو برج کے نیچے اور دوسرا بڑا ڈاکخانہ ناگی روڈ کے قریب واقع ہے ۔ عزیز لاہوریو، آپ کو یہ پڑھ کر حیرت ہو گی کہ کبھی ڈاک خانے سے ریڈیو لائسنس اور ڈرائیونگ لائسنس تک کی تجدید ہوا کرتی تھی۔ ہمیں آج بھی یاد ہے یہ کوئی 42برس قبل کی بات ہے جب ہمیں ریڈیو سننے کا بہت شوق ہوا کرتا تھا، ہم ہر سال ریڈیو کا لائسنس بھی بنوایا کرتے تھے اور ریڈیو لائسنس کو ڈاک خانے کا عملہ چیک بھی کیا کرتا تھا۔ایک دفعہ ڈاک خانے کے عملے نے ہماری کار کا انٹینا دیکھ کر روک کر ریڈیو لائسنس کے بارے میں پوچھا تو ہم نے بتایا کہ اس مرتبہ اس لائسنس کی تجدید کرانا بھول گئے ہیں تو ہمیں پانچ روپے جرمانہ بھی ہوا تھا ، ہر کار میں ریڈیو لازمی ہوا کرتا تھا اور لوگ بڑی شان سے ریڈیو کے سلور رنگ کے انٹینے اونچا کرکے کار چلایا کرتے تھے۔ بھارت کی کئی فلموں میں کار ریڈیو پر ہیرو و ہیروئن کو گانے سنتے دکھایا گیا ہے ڈاکٹر انو رسجاد مرحوم کےپاس بھی گرین رنگ کی شیور لیٹ ہوتی تھی جب وہ ہمارے گھر آتے تھے تو ہم ان کی کارکا ریڈیو لگا کر بہت خوش ہوا کرتے تھے۔ ڈاکٹر انور سجاد بھی کیا کمال انسان اور ڈاکٹر تھے مریضوں کو ہنسا ہنسا کر صحت یاب کر دیا کرتے تھے، ان کا کلینک چونا منڈی میں تھا باپ بیٹا دونوں پریکٹس کیا کرتے تھے ۔والد کا نام ڈاکٹر دلاور حسین تھا ۔پھر موٹر کاروں میںریکارڈ چینلز آ گئے۔ آج کی نسل کو کیا پتہ کہ یہ ریکارڈ پلے اور چینلز کا کیا کردار ہوا کرتا تھا۔ وہ زمانہ اب کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا ۔ہماری نسل کے لوگوں نے جس لاہور کو دیکھا ہے، وہ لوگ اب کم ہوتے جا رہے ہیں لیکن خوبصورت یادیں جو لاہور سے وابستہ ہیں ان کو کسی نے محفوظ نہیں کیا۔ ایک وقت تھاجب لاہور میں ہر دوسرا لاہوریا آپ کوایسا مل جاتا تھا جس نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا تھا، جس نے قائداعظم، علامہ اقبال، مولانا ابو الکلام آزاد، ملک برکت علی، احمد سعید کرمانی، میاں ممتاز دولتانہ، ممدوٹ، لیاقت علی خان، سردار بہادر یار جنگ، سردار جمیل نشتر، مولانا ظفر علی خان، شورش کاشمیری، مولانا شوکت علی ،مولانا محمد علی جوہر، مولانا حسرت موہانی اور کئی دیگر اہم لوگوں سے کئی کئی ملاقاتیں کی ہوئی تھیں۔
اس تاریخی بیرک کا اب کوئی نام ونشان نہیں جہاں لاہور کا پہلا ڈاک خانہ قائم کیا گیا تھا۔ 1862ءمیں جی پی او کی نئی عمارت تعمیر ہوئی جو سرگنگا رام اور بھائی رام سنگھ کی صلاحیتوں کا کھلا اظہار ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جی پی او کا ڈیزائن لندن اور ممبئی کے مسٹر ایم اسٹارمربیک نے بنایا تھا ۔خیر ہمیں اس بحث میں نہیں پڑنا، ہم تو لاہور کی ان تاریخی اور قدیم عمارتوں کا ذکر کر رہے ہیں جو لاہور کا حسن ہیں اور جو کبھی لاہور کا حسن تھیں۔پہلا ڈاک خانہ جو ایک بیرک میں بنایا گیا تھا، اس کے ساتھ پوسٹ ماسٹر کا بنگلہ بھی تعمیر کیا گیا تھا۔ کہتے ہیں یہ بڑا وسیع بنگلہ تھا۔ لاہور کے اس ڈاک خانے کے پہلے پوسٹ ماسٹر کا نام ڈبلیو ٹی کلفورڈ تھا، 12جون 1849کو انہوں نے اپنا عہدہ سنبھالا تھا ۔یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ جی پی او چوک سے 11بیٹس کلب تک کاتمام علاقہ انارکلی ہی کہلاتا تھا ۔
گوروں نے لاہوریوں کو خط لکھنے کی ایسی عادت ڈالی کہ محکمۂ ڈاک کو دن میں تین مرتبہ شہر میں نصب کوئی 55کے قریب لیٹر بکسوں سے ڈاک نکالناپڑتی تھی ۔اتوار، نیو ایئر، گڈ فرائیڈے،ملکہ کی سالگرہ ، کرسمس اور ایسٹر پر ڈاک خانے میں تعطیل ہوتی تھی۔ یہ تعطیلات قیام پاکستان تک اس طرح رہیں اب ڈاک خانے کی تعطیلات کا شیڈول تبدیل ہو چکا ہے۔
یہ شہر بھی کیا بے مثل تھا کہ جب بیرون ممالک سے لوگوں کے خطوط آتے تھے تو جی پی او کے اوپر ایک گھنٹہ لگا ہوتا ہے، یہ گھنٹہ ہفتے میں دوبار بجایا جاتا تھا اور اس کی آواز پورے لاہور میں سنی جاتی تھی۔ کوئی یقین کرے گا کہ بادامی باغ ریلوے اسٹیشن سے جب اسٹیم ایجن روانہ ہوتا تھا تو اس کی وسل کی آواز ٹیپ روڈ، ریٹی گن روڈ، گھوڑا اسپتال تک سنی جاتی تھی۔(جاری ہے)