• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میاں محمد نواز شریف کے بعد مریم نواز مسلم لیگ ن کی مقبول ترین رہنما کے طور پر جانی جاتی ہیں۔عوامی مقبولیت کا کوئی بھی سروے اٹھا کر دیکھ لیں،مسلم لیگ ن میں جو مقبولیت مریم نواز کے حصے میں آئی ہے،کوئی دوسرا رہنما صرف اس کا تصور ہی کرسکتا ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ مریم نواز کی پارٹی کےلئے شاندار خدمات اور لازوال قربانیاں ہیں۔والدہ کو بستر مرگ پر چھوڑ کر آنا،جیل میں قید کے دوران آخری سانسیں لیتی والدہ سے فون پر بات نہ ہونے کی اذیت سہنا ،جیل سے والدہ کے جنازے و تدفین میں شریک ہونا،والد کے سامنے گرفتار ہونا،نیب پیشی کے دوران قاتلانہ حملے کا سامنا کرنے سے لے کر اپنے والد کے سخت گیر بیانیے کو تھامنا بلاشبہ بہادری کی اعلیٰ مثالیں تھیں۔ان کی انتھک جدوجہد نے آج انہیں اس مقام پر پہنچایا ہے۔ وہ آج اس لئے مقبول نہیں کہ وہ نوازشریف کی بیٹی ہیں بلکہ اسلئے مقبول ہیں کہ جب مسلم لیگ ن کے صف اول کے رہنما ،میاں نوازشریف کا بیانیہ اپنانے سے گھبراتے تھے اور جب پاکستان میں کیوں اور کیسے کہنا جرم بن گیا تھا۔سانس لینے کی بھی آزادی میسر نہیں تھی۔ایسے میں انہوں نے نہتی خاتون ہونے کے باوجود بہت بہادری سے حالات کا مقابلہ کیا۔بلکہ ایک مرتبہ ان سے کہا گیاکہ ’’آپ ہیں تو بہادر،مگر کمزوروں کے لشکر میں ہیں‘‘۔مسلم لیگ ن پر ایسا وقت آگیا تھا کہ نوازشریف کے حق میں جلسے کرنا تو بہت دور کی بات ہے ،آج وفاقی وزارتوں پر براجمان بہت سے رہنما میاں صاحب کے حق میں بات کرتے ہوئے بھی کتراتے تھے،بلکہ مسلم لیگ ن کے کئی سرکردہ رہنماؤں کو یہ کہتے ہوئےبھی سنا کہ میاں نوازشریف اب سیاسی طور پر Eliminateہوچکے ہیں اوران کا اقتدار میں آنا اب ممکن ہی نہیں ہے۔ایسے میں مریم نواز نے پاکستان کے ہر کونے میں جاکر بڑے بڑے جلسے کئے اور میاں نواز شریف کاپیغام پوری طاقت سےپہنچایا۔ایسے حالات تھے کہ پرویز رشید کے علاوہ کئی رہنما ساتھ سفر کرنے سے بھی کتراتے تھے۔مگر نامساعد حالات کے باوجود مریم نواز اپنے والد اور پارٹی کی سربلندی کے لئے ڈٹی رہیں۔کٹھن اور مشکل حالات کا ایسے سامنا کیا کہ آزمائشیں بھی مریم نواز پر رشک کرنے لگیں۔ آزاد کشمیر و گلگت بلتستان جیسے علاقوں میں بڑے بڑے جلسے کئے۔فتح نوشئۃ دیوار تھی مگر ریاستی ’’فیض‘‘مسلم لیگ ن کی جیت میں آڑے آتا رہا،اسی طرح پنجاب کے صوبائی ضمنی الیکشنزمیں بھی بھرپور مہم چلائی مگر اس بار بھی باجوہ صاحب کی دو طرفہ پالیسی آڑے آگئی۔لیکن ہر شے سے قطع نظر لیہ کے ریتلے میدانوں سے لے کر کشمیر کے پہاڑوںتک بھرپور عوامی پذیرائی ان کے حصے میں آئی۔آج ان ہی خدمات کے عوض انہیں نہ صرف پارٹی کا سینئر نائب صدر بنایا گیا ہے بلکہ پورے ملک میں تنظیم سازی کے حوالے سے چیف آرگنائزرمقرر کیا گیا ہے۔جنیواء میں کامیاب آپریشن کے بعد ان کی جلد واپسی متوقع ہے۔مریم نواز اپنے والدسے پہلے پاکستان آئیں گی ۔نوازشریف کی واپسی کے تمام انتظامات کی خود نگرانی کریں گی۔ اسحاق ڈار صاحب کو مقبول عوامی فیصلے کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔نوازشریف کی خواہش ہے کہ ان کی واپسی سے قبل عوام کو بھرپور ریلیف دیا جائے۔اگر اسحاق ڈار صاحب ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی ملک کی معاشی کشتی کو گرداب سے نکالنے میں کامیاب ہوگئے تو پھر مسلم لیگ ن کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرنا بہت مشکل ہو جائے گا،کیونکہ نوازشریف خود میدان میں اترنے کی تیاری مکمل کرچکے ہیں اور عوام آج بھی ان کو ہی مسلم لیگ ن تصور کرتے ہیں۔نواز شریف نے آئندہ چند ماہ کا مکمل سیاسی و معاشی روڈ میپ تیار کرلیا ہے،آئندہ چند روز میں اس پر عملدرآمد کرنے کا آغاز ہوجائے گا۔نوازشریف اور اسحاق ڈار کی خصوصی کوشش کی وجہ سے دوست ممالک معاشی سہارا دینے کے لئے میدان میں آرہے ہیں۔ مریم نوازکے چیف آرگنائزر بننے کے بعد ان کی سب سے بڑی اور اہم ذمہ داری پارٹی کے وفادار ساتھیوں کو مضبوط کرنا ہے۔پارٹی کے وہ لوگ جنہوں نے گزشتہ چار سال کے دوران شدید مشکلات کا سامنا کیا جبکہ ہمیشہ کی طرح آج بھی بعض بناوٹی لوگ اقتدار کے مزے لے رہے ہیں جبکہ پارٹی کے وفادار و نظریاتی ساتھی نظر انداز ہیں۔جنوبی پنجاب میں پارٹی کی صورتحال بہت مخدوش ہے۔ڈیرہ غازی خان ،ملتان اور بہاولپور ڈویژن میں پارٹی کے وفادار ساتھی بہت مایوس ہیں۔مریم نواز صاحبہ کی اولین ترجیح ہونی چاہئے کہ وہ پورے پنجاب میں نئے چہروں کو موقع دیں۔ایسے لوگوں کو ترجیح دیں جو پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے۔موقع پرست لوگوں کو کبھی اہم تنظیمی ذمہ داریاں نہ دیں۔آج ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا باقاعدہ امتحان شروع ہوا چاہتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ انہیں سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا اپنی ہی جماعت کے اندر سے کرنا پڑے گا مگر آپ نے اپنے والد کے نظریے اور فکر کو مشعل راہ بنانا ہے اور ان کی طرح بڑے سے بڑے دباؤ کے باوجود اپنے وفادار ساتھیوں کو نظر انداز نہیں کرنا۔وزارت عظمیٰ کسی بھی سیاستدان کی خواہش ہوتی ہے اورآپ کی بھی ہونی چاہئے۔یہ ایک فطری عمل ہے۔ حالیہ ذمہ داری آپ کے مستقبل کا تعین کرے گی۔

تازہ ترین