چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے کہا ہے کہ شوکاز نوٹس کے بعد پروسیڈنگ نے چلنا ہے، پھر کیا ہوگا؟ کسی کو پتا نہیں۔
عدالت عالیہ اسلام آباد کے چیف جسٹس نے ممنوعہ فنڈنگ کیس کی سماعت میں سابق وزیراعظم عمران خان کو جاری کیے گئے شوکاز نوٹس پر الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں عمران خان کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا، شوکاز کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ صفائی کا موقع دیا جائے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے مزید کہا کہ اظہار وجوہ نوٹس کا مطلب یہی ہے کہ موقف بیان کرنے کا موقع دیا جائے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ انہیں وضاحت کے لیے مناسب وقت دیا گیا تھا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ شوکاز کے بعد پروسیڈنگ نے چلنا ہے اور اس میں کیا ہونا ہے کسی کو پتہ نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ شوکاز ایک آزادانہ کارروائی ہے جو چلے گی، شوکاز پر پی ٹی آئی آپ کو تمام دستاویزات کے ساتھ ہر چیز دے سکتی ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے یہ بھی کہا کہ شوکاز محض ایک رسمی اوپن اینڈ شٹ کارروائی نہیں ہوسکتی، شوکاز میں پی ٹی آئی کو دفاع کا موقع دیا جانا چاہیے۔
دوران سماعت جسٹس میاں گل حسن نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے کہ بس جو رپورٹ آگئی وہی حتمی ہے؟
انہوں نے مزید کہا کہ آپ کا یہ موقف ہے پھر تو پی ٹی آئی کے موقف کو تقویت ملے گی، اس صورت میں ہم پھر یہاں پی ٹی آئی کو میرٹ پر سن لیتے ہیں۔
جسٹس میاں گل حسن نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ الیکشن کمیشن کو خدشہ ہے پی ٹی آئی تاخیری حربے آزمائے گی؟
ان کا کہنا تھا کہ اس پہلو کو اسلام آباد ہائیکورٹ بھی دیکھے گی، اگر وہ تاخیری حربے آزمائیں تو الیکشن کمیشن قطعاً برداشت نہ کرے۔
جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرلیں اور التوا پر بھاری جرمانے کریں، ایسی صورت میں یہ لوگ ہائیکورٹ آکر معافیاں مانگیں گے۔
پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور نے کہا کہ الیکشن کمیشن ڈکلیئریشن نہیں دے سکتا کہ کوئی جماعت فارن فنڈڈ ہے، باہر کی کسی حکومت یا جماعت سے فنڈنگ لینے کا الزام ہے ہی نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن ڈکلیئریشن دے کرحکومت کو معاملہ نہیں بھیج سکتا۔
عدالت نے پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔