• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مکرمی! انسانی زندگی کا دارومدار سامان زیسٹ پر ہے جسے عام طور پر معیشت کہا جاتا ہے۔ چند چیزیں تو ہمیں فطرت سے مل جاتی ہیں مثلاً روشنی، حرارت ، ہوا اور پانی وغیرہ۔ اس کے علاوہ غذائی اجناس زمین سے حاصل ہوتی ہیں، جن کے لیے انسانی محنت اور سرمایہ درکار ہوتا ہے۔ اس طرح مصنوعات کی پیداوار کے لیے بھی محنت اور سرمائے (یعنی دولت) کا سوال سامنے آتا ہے۔ یہی دولت کا حصول آج کے دور کا معاشی مسئلہ کہلاتا ہے۔ اسے اس قدر اہمیت حاصل ہو گئی ہے کہ ہمارے زمانے کو ”عصرِ معیشت“ کہا جاتا ہے۔ سکے کی ایجاد سے پہلے مختلف ضروریات زندگی حاصل کرنے کے لیے تبدیلی اجناس رائج تھا۔ اس سسٹم میں بے شمار مشکلات تھیں اور اس کے حل کے لیے سکہ ایجاد کیا گیا ۔ اب سکہ نے یہ مشکل تو حل کر دی مگر خود سکہ ایک ایسا مسئلہ بن گیا جس نے بنی نوع انسان کو ایک نہ ختم ہونے والی مشکل میں ڈال دیا اور ترقی یافتہ قوموں نے اس سکے کی طاقت کی بدولت کم ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ قوموں کا استحصال شروع کر دیا۔ اس کو مزید تقویت سود جیسی لعنت کے ذریعے دی گئی۔ جس نے تکریمِ انسانیت کا گلا گھونٹ دیا۔ سود یعنی (ربا) کے معنی ہیں سرمایہ کا معاوضہ لینا (خواہ اس کی شکل کچھ ہی کیوں نہ ہو)۔ قرآنِ حکیم کی روسے ، معاوضہ محنت کا ہے، سرمایہ کا نہیں۔ سورۃ ”بقرۃ“ کی آیات 275 تا 279 میں اللہ تعالیٰ نے سود کو حرام قرار دیا ہے۔ قرآن نے معاش کے لیے ایسا نظام وضع کیا کہ ملکی ذرائع پیداوار (زمین یا صنعت) اور ملکی مال و دولت پر افراد کی نجی (ذاتی) ملکیت کو ختم کر دیا اور ہر ایک کو اس کی استعداد اور صلاحیت کے مطابق کام دینا اور اس کی ضروریات کو پورا کرنا نظام کی ذمہ داری قرار دے دیا۔ اس نظام کو تبدریج اپنی تکمیل کو پہنچانا حکومتِ وقت کا کام ہے۔ آج کل کسی بھی ملک کی معاشی حالت کا انڈکس اس کا جی ڈی پی ہے جو مختلف ممالک کے اپنے معاشی حالات کی وجہ سے مختلف ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی اس وقت کے معاشی حالات کے تناظر میں اسے 3.5 اور 4.0 کے درمیان ہونا چاہیے اور اس میں بتدریج اضافہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کی کامیابی کا عکاس ہو گا، جسے حاصل کرنے کے لیے نئی معاشی پالیسی کی اشد ضرورت ہے جس میں سود یعنی ربا کے خاتمے کو مدِنظر رکھنا لازم ہے۔

تازہ ترین