• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف نے مسلم لیگ ن کی باقاعدہ بنیاد 1992ءمیں رکھی تھی۔اس سے پہلے 1985ءکے غیر جماعتی انتخاب کے بعد نواز شریف نے وزیراعلیٰ بن کر صوبہ پنجاب کی باگ ڈور سنبھالی۔1985اور 1988میں مسلسل دو مرتبہ وزراتِ اعلیٰ کا قرعہ فال نواز شریف کے نام نکلا۔اس عرصے میں نوازشریف نے پنجاب کو خود لیڈ کیا اور اٹک سے لے کر روجھان مزاری تک سیاسی جڑیں مضبوط کیں۔نوازشریف کو اپنی وزارت ِاعلیٰ کے انہی ادوار کی وجہ سے مسلم لیگ ن کی بنیاد رکھنے میں آسانی ہوئی اور اسی محنت کی وجہ سے آج بھی مسلم لیگ ن پنجاب کی مقبول ترین سیاسی جماعت کے طور پر جانی جاتی ہے۔بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ پنجاب کو میاں نواز شریف خود چلاتے تھے اور پارٹی کی جڑوں کو کبھی کھوکھلا نہیں ہونے دیتے تھے۔نوازشریف کو پنجاب کے ایک ایک سیاسی گھرانے کی اہمیت اور عوامی نبض کا بخوبی احساس تھا۔پھر وقت تبدیل ہوا۔نوازشریف وزیراعظم بن کر مرکزمیںچلے گئے اور پنجاب کی باگ ڈور شہباز شریف کے حوالے کردی۔یوں کہہ سکتے ہیں کہ پہلے نواز شریف پنجاب میں پارٹی کو چلارہے تھے اور پھر وہ ذمہ داری شہباز شریف کے حصے میں آئی۔شہباز شریف نے بھی نوازشریف کی قیادت میں پنجاب میں بہتری کارکردگی دکھائی۔مگر شہباز شریف کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد بھی بیشک انتظامی فیصلے شہباز صاحب کرتے تھے مگر تمام سیاسی فیصلے میاں نواز شریف خود کرتے تھے۔

پھر پارٹی پر برے وقت کا آغاز ہوا ۔میاں نوازشریف علاج کرانے کی غرض سے بیرون ملک چلے گئے۔شہباز شریف قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوگئے۔پنجاب میں بھی مسلم لیگ ن عثمان بزدار کو ہٹا کر اپنا وزیراعلیٰ لانے میں کامیاب ہوگئی۔

پورا صوبہ عطا اللہ تارڑ،ملک احمد خان اور بیرسٹر نبیل اعوان کے حوالے کردیا گیا۔عطا اللہ تارڑ شہباز شریف کی وزارتِ اعلی میں پنجاب حکومت میں گریڈ 17کے کنٹریکٹ ملازم تھے۔پہلے شہباز صاحب اور پھر حمزہ صاحب کے سرکاری اسٹاف افسر کی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔2018میں پارٹی میں قیادت کا اتنا فقدان پیدا ہوا کہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی صوبہ پنجاب کی باگ ڈور ایک اسٹاف افسر کے حوالے کردی گئی ۔ 2022میں حمزہ صاحب کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد انہی لوگوں نے پورے پنجاب کی انتظامیہ کے انٹرویو کئے اور افسرا ن کی ایسی ٹیم لگائی کہ مسلم لیگ ن ضمنی الیکشن بدترین انداز میں ہار گئی۔کہاں شہباز شریف پنجاب کے ڈی سی،ڈی پی او ،آر پی او،کمشنر اور چھبیس انتظامی سیکریٹریز کے انٹرویو کرکے لگاتے تھے اور کہاں یہی کام ایک اسٹاف افسر اور ایک ایم پی اے کے سپرد کیا گیا۔اگر مسلم لیگ ن پرویزالہٰی پر تنقید کرتی ہے کہ پورا صوبہ اپنے ذاتی ملازم سے چلوارہے تھے تو مسلم لیگ ن بھی تو صوبہ ایک ذاتی اسٹاف افسر لیول کے بندے سے چلوارہی تھی۔

پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا چیلنج کیا جارہا ہے،سیاست چھوڑنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔مگر پرویزالٰہی جیسے سینئر ترین سیاستدان کا مقابلہ کرنے کے لئے عطا اللہ تارڑ صاحب کو بھیجا گیا۔حالانکہ لاہور مسلم لیگ ن کا سیاسی گڑھ ہے۔خواجہ سعد رفیق لاہور کی سیاست کے چیمپئن تصور کئے جاتے ہیں،خواجہ احمد حسان کی ساری زندگی لاہور میں گزر گئی ہے،ایاز صادق تمام سنجیدہ سیاسی حلقوں میں پسند کئے جاتے ہیں،رانا تنویر لاہور سے نہیں ہیں مگر ان کا شیخوپورہ کا حلقہ اور لاہور جڑے ہوئے ہیں،انتہائی سینئر سیاستدان ہیں۔رانا پھول کے فرزند رانا اقبال کے خاندان کی ساری زندگی مسلم لیگ ن اور پنجاب اسمبلی کے ساتھ گزری ہے،مسلسل دس سال پنجاب اسمبلی کے اسپیکر رہے۔خرم دستگیر گوجرانوالہ کی سیاست کے حوالے سےایک ناقابل تردید حقیت ہیں۔پتہ نہیں ایسی کونسی مجبوری آڑے آگئی تھی کہ پنجاب اسمبلی میں سیاسی جوڑ توڑ کے حوالے سے ان سینئر ترین اراکین کی خدمات حاصل نہ کئی گئیں۔رانا ثنااللہ ایک بہادر آدمی ہیں مگر بطور وزیرداخلہ اور اب پنجاب اسمبلی کے حوالے سے کافی مایوس کیا ہے۔ملک کی تمام انٹیلی جنس ایجنسیز کا نگران اس بات سے بے خبر تھا کہ پرویز الٰہی بندے پورے کرچکے ہیں۔ بہت سے بڑے ناموں سے ذاتی تعلق اور دوستی ہے مگر ایسے میں حقائق سے منہ نہیں موڑا جاسکتا۔ ان غلطیوں کی وجہ سے مسلم لیگ ن کو پنجاب میں یکے بعددیگرے بد ترین ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور  یہی حقیقت ہے۔

میاں نوازشریف کو اپنی پارٹی بچانے کے لئے خود آگے آنا ہوگا۔مرکز قائم رہے نہ رہے مگر پنجاب کے حوالے سے مقبول سیاسی فیصلے کرنا ہونگے۔کیونکہ پنجاب مسلم لیگ ن کی بنیاد ہے اور اپنی بنیاد کو ایک کمزور وفاقی حکومت کےلئے قربان کرنا کوئی عقلمندی نہیں۔نواز شریف کو خود لیڈ کرنا ہوگا۔پارٹی میاں نواز شریف کی ہے اور سخت فیصلے بھی میاں صاحب آپ کو لینے ہیں۔اگر پنجاب آپ کے ہاتھ سے سلپ ہوا تو پھر باقی کچھ نہیں رہے گا۔آپ کی جماعت نے 2008سے2013تک پنجاب کے بل بوتے پر مرکزی حکومت حاصل کی تھی اور پیپلزپارٹی کے پاس 2008کی پنجاب اسمبلی میں سو سے زائد ارکان اسمبلی تھے مگر غیر مقبول فیصلے اور وفاقی حکومت کی کوتاہیوںاور غلطیوں کی وجہ سے پیپلز پارٹی پنجاب میں ایسی eliminateہوئی کہ 2013سے2018ءکی پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے پاس آدھ درجن ایم پی ایز بھی نہیں تھے۔ پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کریں۔اگریہی ناتجربہ کار ٹیم رہی تو آئندہ نتائج اس سے بھی بھیانک ہونگے اور ’’تمہاری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔‘‘

تازہ ترین