وزیراعظم نوازشریف نے اس سے پہلے تین آرمی چیف مقرر کئے جن میں سے دو نے موصوف کے ساتھ ہاتھ کیا جبکہ تیسرے کسی شمار قطار میں ہی نہیں کہ بیچارے گئے تو آرمی چیف کا چارج لینے تھے مگر جی ایچ کیو کے گیٹ پر ہی انہیں روک لیاگیا اور آج تک اندر نہیں جانے دیا گیا۔ یہ واقعہ 12اکتوبر 1999کا ہے جب جنرل پرویز مشرف سری لنکا کےدورے پر تھے اور وزیراعظم نوازشریف نے انہیں فارغ کرکے اپنے منظورِ نظر جنرل ضیا الدین بٹ کو چیف مقرر کردیا۔
بٹ صاحب کا تعلق چونکہ انجینئرنگ کور سے تھا، اس لئے مشرف کے ساتھی جرنیلوں نے انہیں کچھ زیادہ ہی ایزی لیتے ہوئے ان کی تقرری کو ہوا میں اڑا دیا۔ کہا جاتا ہے کہ موصوف جب چارج لینے دفترپہنچے تو قائم مقا م آرمی چیف جنرل سعید الظفر (ریلوے اراضی فیم) نے انہیں مین گیٹ پر ہی رکوا دیا بلکہ نہ صرف یہ بلکہ سنتری بادشاہ نے ان سے موبائل فون بھی چھین لیا اور یہ ’’شریف النفس‘‘ شخص خواہ مخواہ کی مبینہ خواری سمیٹ کر واپس چلا آیا۔
اس سے پہلے نوازشریف نے جنرل وحید کاکڑ کو آرمی چیف بنایا مگر انہوں نے ان کابستر گول کرنے میں صدر غلام اسحاق خان کابھرپور ساتھ دیا۔ یادرہے کہ کاکڑ کی سفارش نوازشریف کے چند قریبی دوستوں نے بیک زبان کی تھی۔ اس کے بعد آیئے پرویز مشرف کی طرف۔ یہ نوازشریف کے سیاسی کیریئر کی سب سے بڑی غلطی تھی اور اس مرتبہ سفارشی تھے ان کے قریبی دوست حمید قدوائی۔
اب چوتھی مرتبہ نوازشریف کو بہت پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے تین باتوں کاخصوصی خیال رکھنا تھا۔ ایک تو یہ کہ نئے چیف کے ساتھ ان کی ذاتی اور پرانی یاداللہ ہونابے حد ضروری ہے۔ دوسرایہ کہ مذکورہ جرنیل میرٹ کی شرائط بھی کماحقہ ٗ پوری کرتا نظر آئے اور آخری یہ کہ وہ صرف اورصرف ایک سپاہی ہو اور بس۔ چنانچہ جنرل راحیل شریف پہلی شرط پر پورے اس طرح اترتے ہیں کہ آپ اور آپ کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف شہید نشان حیدر سینٹ انتھونی لاہور سے فارغ التحصیل ہیں اوریہی سکول نوازشریف کابھی تھا۔ اس کے علاوہ جنرل صاحب بھی نوازشریف کی طرح راوین ہیں اور کوئٹہ کی پیدائش کے باوجود پورے پورے لاہوری ہیں۔
میرٹ کے حوالے سے بھی جنرل راحیل شریف بہت اوپر کے نمبروں پرہیں اور ویسے بھی اس سے بڑا میرٹ اور بھلا کیا ہوگاکہ آپ خود ایک فوجی افسر کے بیٹے ہیں، آپ کے دو بھائی بھی فوج سےمنسلک رہے جن میں میجر شبیر شریف جیسابہادرافسر بھی شامل ہے جو ستارہ ٔ جرأت بھی تھا اور نشان حیدر بھی۔ اس کے علاوہ بھی اس خاندان کی قسمت میں ایک نشان حیدر تھا اور وہ ملا میجر عزیز بھٹی شہید کو جو کہ جنرل راحیل کے رشتہ دار تھے۔ میجرشبیر شریف بارے اپنی پرانی رائے پر ہم آج بھی قائم ہیں کہ نشان حیدر پانے والے وہ سب سے ہینڈسم اور خوش شکل افسر تھے۔ جنرل صاحب بھی خاصے خوش شکل ہیں مگر شبیر شریف شہید کی بات ہی کچھ اور تھی!
جنرل راحیل شریف کی والدہ اور دیگراہل خاندان کی باتیں سن کر محسوس ہوتا ہے کہ اس فیملی میں قناعت بھی ہے اور سرشاری بھی۔ یہ شہیدوں اورسپاہیوںکا خاندان ہے جس کا مطمع نظرملک کی عزت اور وقار ہے نہ کہ عہدہ۔
جنرل راحیل شریف کو آرمی چیف مقرر کرکے نوازشریف نے بظاہر پہلا قابل ذکر کام کیاہے۔ یہ نہ صرف عمدہ بلکہ بہترین چوائس ثابت ہوگی کیونکہ دہشت گردی، مذاکرات اور قومی مفاد وغیرہ کے حوالے سے میاںصاحب اور جنرل راحیل کی سوچ تقریباً ایک ہی ہے چنانچہ نوازشریف کو اس طرف سے تو مطمئن ہی رہنا چاہئے تاہم میاں صاحب کو چونکہ دشمن سازی کے ایک سو ایک طریقے آتے ہیں اس لئے انہیں پھونک پھونک کر قدم رکھناہوگا!