’’ جب سیاست دشمنی میں تبدیل ہوجائے، قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان ایک دوسرے کو گالیاں دینے اور ایک دوسرے پر الزام لگانے میں وقت گزار دیں اور سیاست داں ہر طریقے سے ایک دوسرے کو جیل میں ڈالنے اور بدنام کرنے کی کوشش کریں تو پھر عوام کے مسائل ایک طرف رہ جاتے ہیں‘‘ گزشتہ روز کوئٹہ میں قومی ڈائیلاگ سیمینار سے خطاب میں کہے گئے سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی کے یہ الفاظ ہماری موجودہ تشویشناک قومی صورت حال کے اصل سبب کی بالکل درست نشان دہی کررہے ہیں اور اس سبب کا ازالہ کرکے ہی معاملات کو درست راستے پر ڈالا جاسکتا ہے۔ اپنے خطاب میں نہایت صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ’’ معیشت کی بدحالی بھی انتہا کو پہنچ چکی ہے اور ہماری سیاست کی ناکامی بھی ۔ اگر قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں پاکستان کے مسائل اور عوام کی تکلیف کی بات ہو رہی ہوتی تو اس سیمینار کی ضرورت نہ پڑتی‘‘ سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ’’ مجھے خاص طور پر سب سے زیادہ پریشانی یہ ہے کہ آج اتنے تشویش ناک حالات ہونے کے باوجود مجھے سیاسی نظام کے اندر وہ صلاحیت نظر نہیں آتی جو ان کا مقابلہ کرسکے‘‘معاملات کے اس نوبت تک پہنچ جانے کا ذمے دار اپنے کسی سیاسی مخالف کو قرار دینے کے بجائے شاہد خاقان نے نہایت دیانتداری سے تسلیم کیا کہ ان حالات کو پیدا کرنے میں وہ سارے لوگ شامل ہیں جو اس ملک پر حکومت کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ بات صرف سیاست تک محدود نہیں ، ہمارے ملک میں فوج طویل عرصے تک اقتدار میں رہی ہے اور آج بھی با اثر ہے، اگر صرف سیاست کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے تو درست نہیں ہوگا، جو حالت عدلیہ کی ہے وہ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ جو معاشی حالات ہیں ان پر قابو پانے کے لیے ایک لمبا عرصہ درکار ہوگا، اس بات کو یاد رکھیں کوئی معجزہ نہیں ہوتا، دوسرے بھی اسی قوم کی مدد کرتے ہیں جو اپنے مسائل خود حل کرنا جانتی ہو۔سابق وزیر اعظم نے موجودہ صورت حال کی مبنی بر حقیقت عکاسی کے ساتھ ساتھ مسائل و مشکلات کے گرداب سے ملک کو نکالنے کی راہ کی نشان دہی بھی کی۔ انہوںنے واضح کیا کہ’’ یہ معمول کے حالات نہیں بلکہ غیرمعمولی حالات ہیں اور ان کا مقابلہ بھی ایک غیرمعمولی عمل سے کرنا پڑے گا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ مسائل حل کرنے کے لیے سیاسی قوتیں اور ادارے اپنے مفاد سے آگے دیکھیں‘‘۔بلوچستان کے مسائل اور حقوق سمیت تمام مسائل کے حل کی کلید پچاس سال پہلے بننے والے ملک کے متفقہ آئین کو قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیمینار میںجن باتوں کا ذکر ہوا ہے ان سب کا حل آئین میں موجود ہے لیکن ان مسائل کی بات کرنے والا کوئی ہونا چاہیے اور ان حقوق کو لینے والا کوئی ہونا چاہئے۔ جب ملک میں انصاف کا نظام انصاف نہ دے سکے تو لوگ دوسری طرف نکل جاتے ہیں۔ مسائل اسی وقت حل ہوں گے جب فہرستیں بننے کے بجائے انتخاب سے لوگ آئیں گے، راتوں رات سیاسی جماعتیں بننا ختم ہوجائیں گی، جب سیکڑوں اور کروڑوں روپے دے کر سینیٹر نہیں بنیں گے ۔ لاپتا افرادکے مسئلے کا حل نہ ہونا انصاف کے نظام اور آئین کی ناکامی ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے صراحت کی کہ جس مشکل میں ہمارا ملک ہے اگر اس کا ذرا بھی احساس ملک کی سیاسی قیادت کو ہو تو تمام ٹاک شوز اور باتیں ختم ہوجائیں گی۔ ملک کی بقا اور سلامتی کا تقاضا ہے کہ شاہد خاقان عباسی کے اس چشم کشا خطاب اور دردمندانہ پکار پر ہماری سیاسی قوتیں اور ریاستی ادارے مثبت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ان کی اس تجویز کو عملی جامہ پہنائیں کہ آج وقت ایک دوسرے سے دست و گریباں ہونے کا نہیں، ایک دوسرے پر الزام لگانے کا نہیں بلکہ یکجا ہوکر درپیش چیلنجوںکا مقابلہ کرنے کا ہے۔