• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور کے ایک نجی اسکول کی لڑکیوں کو ایک بچی پر تشدد کرتے دیکھا تو ایک بار پھر یہ احساس ہوا کہ ہمارے ہاں رائج تعلیم و تربیت کے نظام پر نظر ثانی کرنے کی شدید ضرورت ہے۔صدیوں سے یہ تصور پختہ ہوچلا ہے کہ انسان کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو ماپنے کا پیمانہ ذہانت پر مبنی وہ آزمائش ہے جسے ’آئی کیو ٹیسٹ‘‘کہا جاتا ہے۔یعنی وہی بچہ ہونہار ،ذہین اور قابل ہوگا جس کا حافظہ تیز ہے،یادداشت مضبوط ہے،جوسائنس کے پیچیدہ نسخے ،تاریخ اور جغرافیہ کے اعداد وشمارا ور ریاضی کے مشکل سوال یاد کرسکتا ہے ۔اسی سوچ کے تحت بچوں کی کمر پر کتابوں کا بوجھ لاد کر ان کے آگے امتحان میں امتیازی پوزیشن لینے کی گاجریں لٹکا دی جاتی ہیں اور وہ زندگی کی اس دوڑ میں شامل ہوجاتے ہیں۔تعلیم کے ساتھ تربیت کی بات ہو بھی توبچوں کو زندگی گزارنے کا سلیقہ اور قرینہ بتانے کے بجائے مذہبی تعلیم کے نام پر ان کے دماغ میںبعض مخصوص باتیں ٹھونس دی جاتی ہیں۔آداب کی طرف دھیان نہیں دیا جاتا۔اخلاقیات کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔ایک دوسرے سے برتائو کیسے کرنا ہے،یہ نہیں بتایا جاتا ۔مسائل اورپریشانیوں کا سامنا کرنے کی تربیت نہیں دی جاتی۔

محض انٹیلی جنس کوشینٹ ہی ذہانت و فطانت کو جانچنے کا پیمانہ ہے،اس تصور کو سب سے پہلے ایک ماہر نفسیات Howard Gardner نے اپنی کتاب Frames Of Mind میں چیلنج کیا۔اور اب بیشتر ماہرین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ صرف انٹیلی جنس کوشینٹ یا حاصل تقسیم بالترتیب ذہانت سے کسی شخص کی دانائی اور بصیرت کا تخمینہ نہیں لگایا جاسکتا۔اس نئے فلسفے اور سوچ کے مطابق کسی بھی انسان کی عقلمندی کا انحصار چار مختلف عناصر پر ہوتا ہے:

(1) حاصل تقسیم بالترتیب ذہانت (انٹیلی جنس کوشینٹ )IQ، (2) حاصل تقسیم بالترتیب جذبات (ایموشنل کوشینٹ)EQ، (3) حاصل تقسیم بالترتیب سماج (سوشل کوشینٹ)SQ، (4) حاصل تقسیم بالترتیب مشکلات(ایڈورسٹی کوشینٹ)AQ

اِدراک وفہم کی صلاحیت انٹیلی جنس کوشینٹ کہلاتی ہے یعنی آپ سبق جلدی یاد کرلیتے ہیں ،بھولتے نہیں ،حافظہ تیز ہے، جیومیٹری،الجبرا،ٹریگنومیٹری ،مسئلہ فیثاغورث اور لوگرتھم کے جدول جیسے مشکل سوال حل کرلیتے ہیں تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ آپ کا آئی کیو لیول اچھا ہے۔حاصل تقسیم بالترتیب جذبات یا ایموشنل کوشینٹ کا مفہوم یہ ہے کہ آپ اپنے جذبات و احساسات کا بندوبست کس طرح سے کرتے ہیں ۔ان کے اظہار کےلئے کیا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔کسی ذہنی کشمکش سے کس طرح نجات پاتے ہیں۔لوگوں سے آپ کا برتائو کیسا ہے۔آس پاس رہنے والوں کی کیفیت کا اندازہ لگاپاتے ہیں یا نہیں۔اپنی تسکین کی خاطر دوسروں کے جذبات و احساسات کو ٹھیس تو نہیں پہنچاتے ۔یہ سب ایموشنل کوشینٹ یا EQکہلاتا ہے۔حاصل تقسیم بالترتیب سماج یا سوشل کوشینٹ آپ کے سماجی تعلقات اور رویوں کا احاطہ کرتا ہے۔آپ اپنے دوستوں اور تعلقات کا دائرہ کس طرح ،کیسے اور کس ترتیب کے ساتھ وسیع کرتے ہیں اور پھر انہیں کیسے نباہتے ہیں ،یہ صلاحیت سماجی ذہانت یا SQلیول کہلاتی ہے۔اس کے بعد ہے حاصل تقسیم بالترتیب مشکلات یا ایڈورسٹی کوشینٹ ۔زندگی دھوپ اور چھائوں کا نام ہے ۔ہر قدم پر انسان کو پریشانیوں ،مصیبتوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔آپ اس صورتحال سے کس طرح نبرد آزما ہوتے ہیں ۔ہمت اور حوصلے سے یہ سب جھیلتے ہیں اور اس دلدل سے نکلنے کےلئے کوئی تدبیر اختیار کرتے ہیں ۔یہ سب ایڈورسٹی کوشینٹ یا AQلیول کے زمرے میں آتا ہے۔

ایک اور ماہر نفسیات Daniel Goleman جو ’’Emotional Intelligence and Social Intelligence: The New Science of Human Relationships‘‘نامی کتاب کے مصنف ہیں ،ان کے مطابق انسان کی 80فیصد کامیابی کا دارومدار EQیعنی ایموشنل کوشینٹ پر ہے۔سوشل کوشینٹ یا SQاور ایڈورسٹی کوشینٹ یا AQکی اہمیت کو بھی نظر اندا ز نہیں کیا جاسکتا مگر ہمارے ہاں صرف انٹیلی جنس کوشینٹ یعنی IQکو ہی کامیابی کی سیڑھی سمجھا جاتا ہے۔تعلیمی اداروں میں بچوں کو پڑھایا نہیں بلکہ سدھایا جاتا ہے۔بدقسمتی سے گھروں میں بھی پرورش کایہی چلن ہے۔سمجھانے ،بتانے اور سکھانے کے بجائے ڈانٹ کر احکامات بجالانے کی تلقین کی جاتی ہے۔سوالات اُٹھانے کو بدتمیزی قرار دیا جاتا ہے۔اسی طرح اسکولوں میں بچے مخصوص قسم کے نصاب کو رٹا لگا کر امتحان میں اچھی پوزیشن تو لے لیتے ہیں لیکن انہیں زندگی جینے کا شعور نہیں ہوتا۔بات کرنے کا سلیقہ نہیں جانتے۔اختلاف رائے کے آداب سے نابلد ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں بہروپیوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ حقیقی سائنسدان ،غیر مصنوعی صحافی،سچے اور کھرے سیاستدان،بے میل قانون دان اوراصلی محقق انگلیوں کی پوروں پر گنے جاسکتے ہیں۔ستم بالائے ستم تو یہ ہے کہ اب ہمارے ہاں کھرے ،شفاف اور اجلے دانشور بھی دستیاب نہیں۔بہروپئے دانشوربڑھتے جارہے ہیں۔ تشویقی، ترغیبی اور تحریکی شخصیات ہوں یا پھر مورخ اور مصنف ،طریقہ واردات یہ ہے کہ بعض مخصوص کتابیں ،چند اقوال اورکچھ حوالے یاد کرکے لوگوں کو اپنے علم وتحقیق سے مرعوب کیا جائے ۔آپ نے وہ کتاب پڑھی؟نہیں ،تو پھر پڑھا کیا ہے؟آپ نے وہ فلم دیکھی ؟نہیں،پھر آپ نے دیکھا کیا ہے؟زندگی گنوادی آپ نے۔’آپ کو پتہ ہے ذہانت کے کتنے اقتباسات ہوتے ہیں ؟‘اوہ ! تو پھر آپ کچھ نہیں جانتے ۔افلاطون نے تو یہ کہا تھا کہ مجھے بس اتنا معلوم ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا لیکن عصر حاضر کے یہ بزعم خود افلاطون اورمصنوعی دانشور صرف یہ جانتے ہیں کہ باقی لوگ کچھ نہیں جانتے۔

تازہ ترین