• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دہشت گردی کا مسئلہ اگرچہ پچھلے کئی ماہ سے ازسرنو تیزی سے ابھرتا دکھائی دے رہا تھا لیکن گزشتہ پیر کو پشاور کی پولیس لائنز کی مسجد میں انتہائی تباہ کن خود کش حملہ جتنے بڑے پیمانے پر جانی نقصان کا سبب بنا، اس نے بلاشبہ پوری قوم کو ہلاکر رکھ دیا ۔ اس کے نتیجے میں تقریباً آٹھ سال پہلے آرمی پبلک اسکول پشاور میں ہونے والی ہولناک دہشت گردی کی الم انگیز یادیں تازہ ہوگئیں اور یہ احساس نہایت شدت سے ابھرا کہ پشاور سے کراچی تک پورے ملک کو اس چیلنج کا مقابلہ اسی طرح متحد ہو کے کرنا ہوگا جیسے سانحہ پشاور کے بعد نیشنل ایکشن پلان کی تشکیل اور اس کے تحت آپریشن ضربِ عضب اور آپریشن رَدُّالفساد کی صورت میں کیا گیا تھا ۔ اس احساس کو عملی شکل دینے کے لیے گزشتہ روز وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی صدارت میں ایپکس کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں وفاقی وزرائے داخلہ، خزانہ، قانون اوراطلاعات ، صوبائی وزرائے اعلیٰ، گورنر خیبر پختون خوا، سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نیز چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر، حساس سول اور عسکری اداروں کے سربراہوں، پولیس اور دیگر متعلقہ اداروں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ تاہم تحریک انصاف کی قیادت نے نہ صرف ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کی بلکہ اس کی جانب سے سات فروری کو بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس میں بھی شریک نہ ہونے کا اعلان کیا گیا ہے جو بہرکیف ایسا رویہ ہے جس کی حمایت کسی بھی معقول شخص کیلئے ممکن نہیں۔وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کی خاطر مکمل قومی اتحاد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے تحریک انصاف کے قائد کے اس طرزعمل پر ان الفاظ میں گرفت کی ہے کہ ’’ایک لیڈر دہشت گردوں کو بسانے کیلئے آگے بڑھ رہا ہے لیکن اپنوں سے ہاتھ ملانے کو تیار نہیں ‘‘ دہشت گردوں کو نشان عبرت بنانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ اس کیلئے تمام اداروں اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے یہ اہم انکشاف بھی کیا کہ خیبر پختون خوا کو، جہاں پچھلے دس سال سے تحریک انصاف کی حکومت ہے ،اس مدت میں 417 ارب روپے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے دیے گئے جس کا آدھا حصہ بھی اس مصرف میں خرچ ہوتا تو تو عوام چین کی نیند سوتے۔ بلاشبہ یہ ایک اہم سوال ہے کہ اتنی خطیر رقم فراہم کیے جانے کے باوجود صوبے میں دہشت گردی کے خاتمے کے بجائے اس کے پھلنے پھولنے کا سلسلہ کیوں جاری ہے اور متعلقہ ذمے داروں کی جانب سے قوم کو اس کا جواب دیا جانا چاہیے۔ اجلاس میں جو اہم فیصلے کیے گئے ان میںخیبرپختونخوا میں اسلام آباد اور لاہور کی طرح سیف سٹی منصوبے کا آغاز، سی ٹی ڈی اور پولیس کی تربیت و استعداد کار میں اضافہ ، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جدید آلات کی فراہمی، پشاور میں پنجاب کی طرح جدید فارنزک لیب کاقیام، دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے ضروری قانون سازی، وفاق اور صوبوں میں یکساں حکمت عملی اپنانے اور ملک کے اندر دہشت گردوں کی معاونت کرنے والے تمام ذرائع ختم کرنے پر اتفاق شامل ہیں۔ ان نکات کو حتمی شکل سات فروری کو کل جماعتی کانفرنس میں دی جائے گی ۔ وزیر مملکت برائے سماجی تحفظ کے مطابق دہشت گردی کے معاملے پر پڑوسی ملکوں سے بات کی جائے گی تاکہ ان کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہ ہو جبکہ دہشت گردوں کے خلاف ہمہ گیر آپریشن کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ بھی کل جماعتی کانفرنس میں ہوگا۔ حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کی اجتماعی کوششوں میں سیاسی اختلافات کو رکاوٹ نہ بننے دیاجائے اورتحریک انصاف سمیت تمام جماعتیں اس عمل میں اپنا کردار مثبت اور مؤثر طور پر ادا کرنے کی خاطر آل پارٹیز کانفرنس میں پوری نیک نیتی کے ساتھ شریک ہوں۔

تازہ ترین