پشاور کے حساس ترین علاقے میں حالیہ خودکش حملے میں سو سے زیادہ شہریوں کی شہادت نے ہر پاکستانی کو ہلا کر رکھ دیاہے۔اس المناک واقعے میں مسجد میں نماز ظہر کے دوران 400 سے زائد افراد کو نشانہ بنایا گیا۔ اس دردناک واقعہ نے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر بڑے اور سنگین قسم کے سوالات کو جنم دیا ہے۔ ہمارے خفیہ اداروں نے پیشگی اور بروقت اقدامات کیوں نہ کئے؟ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گرد عناصر کو آخر کیوں آسان اہداف مل جاتے ہیں؟ ایسے لگتا ہے کہ ملک میں ایک مرتبہ پھر دہشت گر د سر اٹھا رہے ہیں جن کے خاتمےکے لئے سیاسی اختلافات بھلا کر مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام دوسروں کی جان و مال کی حفاظت کا حکم دیتا ہے اور کسی بھی انسان کی نا حق جان لینانہ صرف اسلام میں حرام ہے بلکہ کسی بھی قسم کی دہشت گردی قابل مذمت ہے۔ ملک میں ہونےوالی حالیہ دہشت گردی بلاشبہ پاکستان کی سلامتی کو نشانہ بنانے کی ایک قبیح حرکت ہے۔
پشاور دہشت گردی میں ہمارا ازلی دشمن بھارت پوری طرح ملوث نظر آتا ہے۔خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اس سے قبل دہشت گردی کے واقعات میں بھی بھارت کی مداخلت کے شواہد انٹیلی جنس اداروں کے پاس موجود ہیں۔ حکومت پاکستان نے اقوام متحدہ اور عالمی برادری کے سامنے بھی بھارت کے مذموم عزائم کو بے نقاب کیا ہے۔ کلبھو شن یادیوکی صورت میں ایک بڑااور جیتا جاگتا ثبوت بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ ماضی میں مشرقی پاکستان کو الگ کرنے میں بھی بھارت کا شرمناک کردار کسی کی نظروں سے اوجھل نہیں ہے۔ملک دشمن بیرونی قوتیں پاکستان میں شرپسندی پیدا کر کے ملک کو کھوکھلا کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں۔ پاکستان مخالف قوتوں کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ پاکستان کا امن اگرخراب کیا گیا توجنوبی ایشیا کے خطے کا امن بھی خراب ہو گا۔ علاقائی امن برقرار رکھنے کے لئے مداخلت کا سلسلہ بند اور دہشت گردی کے منصوبوں کو بھی ختم کرنا ہو گا۔ بدقسمتی سے پاکستانی حکمرانوں کی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے قوم شدید پریشانی میں مبتلا ہے اور قومی سلامتی کوبھی خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔اسی تناظر میں چند روز قبل ملک کے ممتاز دانشور اور سینئر صحافی جناب الطاف حسن قر یشی سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات ہوئی۔اس موقع پر انھوں نے اپنی نئی کتاب’’مشرقی پاکستان، ٹوٹاہوا تارا،‘‘ کمال محبت سے پیش کی۔پاکستانی صحافت اور سیاست کے طالب علموں اور قومی اداروں کے لئے اس اہم اور تاریخی کتاب کامطالعہ انتہائی ضروری ہے تاکہ سانحہ مشرقی پاکستان سے سبق سیکھا جائے اور آئندہ ایسی سنگین غلطیوں کا اعادہ نہ کیا جائے۔وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ’’پاکستان کے مشرقی بازو میں جب کوئی غیرمعمولی واقعہ رونما ہوتا یا کسی بحرانی کیفیت کے آثار نمودار ہونے لگتے، تو مَیں ڈھاکہ جاتا اور معاملے کی تہ تک پہنچنے کے لئے وہاں کئی روز اَور بعض اوقات کئی ہفتے قیام کرتا۔ صحافیوں، طالبِ علموں، سیاست دانوں اور دِینی رہنماوں سے ملتا اور سلگتے مسائل کے اسباب معلوم کرنے کی کوشش میں لگا رہتا۔ اِس اعتبار سے مَیں اکثر اہم واقعات کا عینی شاہد ہوں اور خود کو خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ اپنے قارئین کو حقیقتِ حال سے آگاہ رکھنے میں بھرپور تگ و دَو کرتا رہا۔‘‘اِس کتاب میں جناب مجیب الرحمٰن شامی کا وہ یادگار مضمون ’میں کیسے بھول جائوں؟‘ بھی شامل ہے جس میں اُنہوں نے اٹھارہ جنوری انیس سو ستر کی سہ پہر پلٹن میدان، ڈھاکہ میں جماعتِ اسلامی کے پہلے انتخابی جلسے کی روداد قلم بند کی تھی۔ شیخ مجیب کے مسلح جیالے، جلسے کے منتظمین اور حاضرین پہ ٹوٹ پڑے اور مارشل لا کے باوجود بدترین دہشت گردی کے مرتکب ہوئے۔اِس الم ناک واقعے نے جس میں دو شخص ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے، انتخابی مہم کے شروع ہی میں یہ تلخ حقیقت آشکار کر دی تھی کہ مشرقی پاکستان میں شفاف اور منصفانہ انتخابات کے امکانات خاصے محدود ہیں۔ انتخابی جلسے سے خطاب کے لئے امیرِجماعتِ اسلامی پاکستان سید ابوالاعلیٰ مودودی ایک شام پہلے ڈھاکہ پہنچ گئے تھے اور اُن کی آمد پہ شیخ مجیب الرحمٰن نے جو غیرمعمولی اشتعال انگیز بیان دیا، اُس سے اندازہ ہو گیا تھا کہ اٹھارہ جنوری کو پلٹن میدان میں کیا قیامت ٹوٹنے والی ہے۔اٹھارہ جنوری کی سہ پہر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی چند ساتھیوں کے ہمراہ اَپنے دوست کی رہائش گاہ سے پلٹن میدان کی طرف روانہ ہوئے۔ اُن کا مختصر سا قافلہ جب ڈھاکہ یونیورسٹی کے قریب پہنچا، تو طلبہ کے ایک ہجوم نے اُنہیں گھیر لیا جن کا تعلق عوامی لیگ سےتھا۔ خدشہ یہی تھا کہ وہ بدتمیزی پہ اُتر آئیں گے، لیکن اُن کا رویہ غیرمعمولی ہمدردانہ تھا۔ اُنہوں نے مولانا سے یہ کہتے ہوئے انہیںواپس چلے جانے کی درخواست کی کہ پلٹن میدان میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ مولانا واپس چلے گئے اور بہ فضلِ خدا فسادیوں کے شر سے محفوظ رہے، اِس دل گداز واقعہ کے بعد عوامی لیگ نے اپنی کسی مخالف جماعت کا انتخابی جلسہ منعقد نہ ہونے دیا۔قصہ مختصر! جناب الطاف قریشی صاحب کی کتاب ’’ مشرقی پاکستان، ٹوٹا ہوا تارا‘‘ ایک ایسی چشم کشا اور تاریخی کتاب ہے کہ جس نے ایک بار پھر سانحہ مشرقی پاکستان کے تمام عوامل اور کرداروں کو کھول کر رکھ دیا ہے۔ ہماری موجودہ سول اور عسکری قیادت کو اس کتاب سے ضروررہنمائی حاصل کرنی چاہئے۔