مریم نواز کی بطور سینئر نائب صدر و چیف آرگنائزر مسلم لیگ ن تعیناتی پر پارٹی میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔عمومی تاثر یہ ہے کہ مریم نواز کو پارٹی کی سینئر قیادت پر مسلط کیا گیا ہے۔مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما و سابق سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی کے استعفے نے اس تاثر کو مزید تقویت دی ہے کہ مریم نواز کو پارٹی کی کمان سپرد کرنے پر اختلاف ہے۔مریم نواز صاحبہ پر تنقید کرنے والوں کا موقف یہ ہے کہ نوازشریف کی بیٹی ہونے کی وجہ سے مریم نوازکو پارٹی کی سینئر پوزیشن دی گئی ہےجو جمہوری سیاسی جماعت میں موروثیت کو پروان چڑھانے کےمترادف ہے۔حالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔مریم نواز آج مسلم لیگ ن میں جس مقام پرہیں،انہوں نے اس کی بہت بھاری قیمت ادا کی ہے۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد مریم نواز پاکستان کی واحد خاتون سیاستدان ہیں ،جنہوں نے ایک لمبا عرصہ جیل کاٹی ہے۔دیگر سیاسی رہنماؤں کی طرح مریم نواز ایک دن کے لئے بھی اسپتال یا کسی بھی طرح کی سہولت کی متلاشی نہیں رہیں۔مریم نواز نے اس وقت نوازشریف کا بیانیہ تھاما ،جس وقت شاید نوازشریف کا سایہ بھی ان کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں تھا۔آج مسلم لیگ ن کے صف اول کے وہ رہنما جو خود کو جمہوریت کا بڑا داعی گردانتے ہیں،سویلین بالادستی کا پرچار کرتے نہیں تھکتے، ان میں سے کسی رہنما میں ہمت نہیںتھی کہ عمران ،فیض ہائبرڈ رجیم کو للکارتا،مگر مریم نواز نے نہ صرف آئین کی بالادستی کا علم اٹھایا بلکہ نوازشریف کے ساتھ ایک مخلص کارکن کی طرح ڈٹی رہیں۔جس وقت رانا ثناللہ،پرویز رشید کے علاوہ کوئی صف اول کا رہنما مریم نواز کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں تھا، مریم نواز نے ایسے وقت میں ڈر کی تمام زنجیروں کو اپنے بہادر موقف سے توڑا تھا اور باجوہ ڈاکٹرائن کو سب سے پہلے چیلنج کیا تھا۔
میاں نوازشریف تین مرتبہ ملک کے وزیراعظم رہے ہیں مگر انہوں نے کبھی بھی اپنے کسی بیٹے یا مریم نواز کو کوئی وزارت یا امارت نہیں دی۔ مریم نواز نے پارٹی میں یہ مقام اپنی محنت اور بہادری کے بل بوتے پر حاصل کیا ہے۔جس وقت مریم نواز بغیر مناسب سیکورٹی کے پنجاب کی سڑکوں پر اپنے والد کا ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ لے کر چل رہی تھیں،تب سب کو نظر آتا تھا کہ ایک بہادر لڑکی کمزوروں کے لشکر میں اپنے قائد کا بیانیہ اٹھائے ہوئے ہے۔میاں نوازشریف کو خود بھی توقع نہیں تھی کہ ان کی ناتواں بیٹی پاکستان جیسے ملک میں ان کا بھاری بھرکم بیانیہ اٹھا سکتی ہے مگر مریم نواز کے ناتواں کندھوں نے اپنی استطاعت سے زیادہ والد کا بوجھ اٹھایا۔میری معلومات کے مطابق آج بھی مریم نواز خود کسی ریاستی منصب کی طلبگار نہیں ہیں۔آج اگر انہوں نے اٹک سے لے کر روجھان مزاری تک پارٹی کو دوبارہ مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اس کے پیچھے ایک ہی ٹارگٹ ہے۔مریم نواز مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کو چوتھی مرتبہ وزیراعظم بنانے کا مشن لے کر پاکستان آئی ہیں۔نوازشریف کی ذاتی خواہش ہے کہ وہ پھر پاکستان کے وزیراعظم نہ بنیں مگر مریم نواز والد کو ایک بار پھربھرپور اننگز کھیلتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہیں۔
تنقید کی جاتی ہے کہ مریم نواز اور بلاول بھٹو دراصل امپورٹڈ قیادت ہیں۔اپنے ماں،باپ کےبل بوتے پر اپنی اپنی جماعتوںکی قیادت سنبھال چکے ہیں،حالانکہ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ مریم اور بلاول نے جمہوریت کے اس سفر میں اپنی اپنی ماں کی جان کی قربانی دی ہے۔نوازشریف کو سسکیاں لیتی ہوئی بیوی سے بات کرنے میں ’’آخری دس منٹ بھی ختم ہوگئے‘‘ آڑے آگئے۔ مریم نواز نے اس مقام تک پہنچنے کی بہت بھاری قیمت ادا کی ہے۔جو شاید مسلم لیگ ن کے دوسرے کسی رہنما کی بیٹی ادانہ کرسکے اور میری دعا ہے کہ ایسی نوبت کسی خاندان پہ کبھی نہ آئے۔مریم نواز تو ایسے وقت میں تن تنہارائیوئنڈ سے لڑ رہی تھیں ،جب عمران حکومت نے شریف خاندان کا کوئی مرد بھی باہر نہیں چھوڑا تھا،سب لوگوں کو جیل پہنچا دیا تھا۔باقی مسلم لیگ ن میں ووٹ بینک صرف نوازشریف کا ہے۔
پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ دو لوگوں کوناکام ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ایک وہ جسے نوازشریف نے چھوڑدیا اور دوسرا وہ جس نے نوازشریف کو چھوڑ دیا۔پنجاب کی سیاست کے بڑے بڑے زعما آج کہیں نظر نہیں آتے،حامد ناصر چٹھہ،ذوالفقار کھوسہ،چوہدری نثار علی خان،چوہدری برادران،میاں اظہر سمیت ایک لمبی فہرست ہے۔اگر کوئی پھر بھی خود کو ان ناموں سے بڑا سمجھتا ہے تو تجربہ کرکے دیکھ لے۔ویسے پوری دنیا کی جمہوریتوںمیں مریم اور بلاول جیسی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔بھارت میں اگر اندرا گاندھی کانگریس کی سربراہ تھیں تو آج کانگریس کی باگ ڈور راہول کے پاس ہے۔امریکہ جیسی مہذب جمہوریت میں کلنٹن خاندان،سینئر بش سے لے کر جونئیر بش تک،بنگلادیش میں شیخ مجیب الرحمان اور اب ان کی بیٹی حسینہ واجد،ضیا الرحمان اور ان کی بیوی خالدہ ضیا،اسی طرح سے برطانیہ میں بھی والد اور بیٹے کے وزیراعظم بننے کی مثالیں موجود ہیں۔یہ سب وہ ممالک ہیں جہاںجمہوریت پر ایمان کی حد تک یقین کیا جاتا ہے۔ وہ سیاستدان جو اپنی آبائی نشستیں ہارتے تو نوازشریف انہیں اپنے گھر کے حلقے سے ممبر اسمبلی منتخب کرکے ایوان میں بھیجتے اور اب بعض لوگ اس کی بیٹی کی جدوجہد کو موروثیت سے تشبیہ دیتے ہیں،حالانکہ عوام کی محبت کو موروثیت نہیں بلکہ جمہوریت کہتے ہیں۔