ایمان صغیر
یہ فروری 2013 کی بات ہے۔ وسطی روس میں شہاب ثاقب کے ٹکڑےگرنے کے نتیجے میں زخمیوں کی تعداد گیارہ سو سے تجاوز کر گئی تھی۔ جدید دور میں اس طرح کے کسی ایک واقعے میں زخمی ہونے والے افراد کی یہ تعداد غیر معمولی قرار دی دی گئی تھی۔ روسی حکام نے اس واقعے کے بعدمتاثرہ علاقوں میں صفائی اور امداد کے لیے خصوصی ٹیمیں روانہ کی تھیں۔ یاد رہے کہ دس ٹن وزنی شہابِ ثاقب چوّن ہزار کلومیٹر کی رفتار سے زمین کی جانب آیاتھا۔ زمین کی سطح سے کوئی پچاس کلومیٹر کی بلندی پر اِس کےٹُکڑے ہونے لگے تھے۔اس دیو ہیکل شہابِ ثاقب کی رفتار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ یہ دبئی سے جدہ کا سترہ سو کلومیٹرکا فاصلہ صرف ایک سیکنڈ میں طے کر سکتا تھا،جب کہ جدید مسافر بردار طیارے یہ فاصلہ دو گھنٹوں میں طے کرتے ہیں۔
شہابِ ثاقب وہ چمک دار اجرام فلکی ہیں جو فضا سے آتے اور زمین پر گرتے ہیں۔ انہیں شہابیہ اور عام اردو میں گرتے ہوئے ستارے بھی کہا جاتا ہے۔درحقیقت یہ شہاب (meteoroid) یا نیزک ہوتے ہیں جو زمین کے کرۂ ہوا میں داخل ہو جاتے ہیں اوردباو اور رگڑ کی وجہ سے چمک پیدا کرتے ہیں۔ جب کوئی شہاب اس طرح زمین (یا کسی اور سیارے) کی فضاء میں داخل ہو جائے اور چمک پیدا کرے یا اس کے کرۂ ہوائی سے گزرتا ہوا اس کی سطح پر گر جائے تو اسے شہابیہ (meteorite) کہا جاتا ہے۔ شہابیے کو اردو میں سنگ شہاب بھی کہتے ہیں۔
چھوٹے چھوٹے شہابِ ثاقب کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ مگر بڑے شہاب ثاقب یقینا نایاب ہوتے ہیں۔ ثاقب اصل میں عربی کےلفظ ثقب سے بنا ہوا لفظ ہے جس کے بنیادی معنی سوراخ یا چھید کے ہوتے ہیں۔ جب شہاب زمین کی فضاء میں داخل ہو کر روشنی پیدا کرتے ہیں تو ان سے پیدا ہونے والے لکیر نما راستے کو سوراخ سے گزرکر نکلنے والی روشنی سے تشبیہ دے کر ثاقب کو سوراخ کے ساتھ تابندہ یا روشن کے معنوں میں استعمال کرکے شہابِ ثا قب کا لفظ بنایا گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق شہابِ ثاقب دراصل تقریباً ساڑھے چار ارب سال قبل نظامِ شمسی کی تخلیق کے بعد بچ جانے والا ملبہ ہیں اور ان پر تحقیق سے ممکنہ طور پر یہ بات سامنے آ سکتی ہے کہ ابتدائی نظام ِ شمسی کے اجزائے ترکیبی کیا تھے اور یہ کہ زمین جیسے سیارے کیسے وجود میں آئے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ پہلے کے مقابلے میں اب زمین سےشہابِ ثاقب ٹکرانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی خلائی سائنس دانوں کے مطابق فروری 2013 میں میں جو شہابیے، اسٹیرائڈ یا سیاروں سے ٹوٹ کر گرنے والے اجرامِ فلکی روس میں گرے تھے ان سے کہیں زیادہ خطرناک صورتِ حال کسی نئےشہابِ ثاقب سے پیدا ہوسکتی ہے۔ ایسی صور تِ حال میں پہلے سے آگاہ کرنے کا نظام ہونا مفید ہے۔
یاد رہے کہ روس میں شہاب ثاقب کے چمکتے ہوئے ٹکڑے ز مین پر برسے تو وسطی روس کے چیلیابنسک کے علاقوں میں لوگ خوف و ہراس کا شکار ہوگئے تھے۔ مقامی وقت کے مطابق صبح نو بج کر بیس منٹ پر اورَل کے پہاڑی سلسلے میں شہاب ثاقب کےٹکڑوں کی بارش دیدنی تھی۔ وسیع پیمانے پر پھیلنے والی اس تباہی کے نتیجے میں کسی کا ہلاک نہ ہونا بھی ایک کرشمہ قرار دیا گیا تھا۔اس وقت چیلیابنسک کے علاقائی گورنر میخائیل یُورییوچ نے ذرا یع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا تھا کہ زیادہ تر افراد کو معمولی چوٹیں آئی ہیں۔ شہاب ثاقب کے ٹکڑےجب زمین پر گرے تو اس کے نتیجے میں مختلف اجزاء ہوا میں اڑے اور وہی لوگوں کے زخمی ہونے کی وجہ بنے۔
زخمی ہونے والوں میں بچے بھی شامل تھے۔ اس واقعے کے بعد تقریبا دو سو بچوں کو طبی امداد دی گئی تھا۔ اس سے اس واقعے کی شدّت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف روسی صدر ولادی میر پوٹن نے متاثرہ افراد کی فوری مدد کرنے کے احکامات جاری کیے تھے اور ہنگامی حالات سے نمٹنے والی وزارت کے حکام کا کہنا تھا کہ متاثرہ علاقوں میں بیس ہزار افراد پر مشتمل ایک بھرپور ٹیم روانہ کر دی گئی ہے، جو وہاں امداد کے علاوہ صفائی کے کام میں بھی حصے لے گی۔
سائنس دانوں کا موقف
روسی اکیڈمی آف سائنس کے مطابق تقریبا دس ٹن وزنی یہ شہابِ ثاقب زمین پر گرنے سے پہلے ہی ٹوٹ گیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق اس شہاب ثاقب کا بڑا حصہ چیلیابنسک سے ایک کلو میٹر دور واقع ایک جھیل میں گرا تھا۔چیلیابنسک کا علاقہ دارالحکومت ماسکو کے مشرق میں پندرہ سو کلومیٹر دور واقع ہے۔ وہاں متعدد فیکٹریاں، ایک جوہری پلانٹ اور جوہری مواد کو ناکارہ بنانے اور اسے ذخیرہ کرنے کا ایک مرکز بھی واقع ہے۔
اس واقعے کے نتیجے میں ناسا اور عالمی سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے تاریخ میں پہلی بارچار برس قبل ایک چھوٹے سے سیارچے کے تصادم کے ذریعے زمین پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں تفصیلی فہم حاصل کیا تھا۔ ناسا نے 6 نومبر 2013کو جاری کردہ پریس ریلیز میں کہاتھا کہ 15 فروری، 2013 کو روسی شہر چیلیا بنسک پر ایک سیارچے کے ٹکرا کر پھٹنے کے نتیجے میں حا صل کیے گئے بے مثال اعداد و شمار سائنس دانوں کے لیےقدرت کے اس مظہرِ کو بہتر انداز میں سمجھنے کے ضمن میں ایک انقلاب کی حیثیت رکھتے ہیں۔
چیلیابنسک کے واقعے کا شہریوں کے کیمروں کے ساتھ دیگر ذرائع سے بھی اچھی طرح مشاہدہ کیا گیا۔ اس کی وجہ سے محققین کو یہ نادر موقع ملا کہ وہ اس واقعے کی جانچ پڑتال کر نے کے ساتھ زمین کے قریب موجود اشیاء کے مضمرات کا مطالعہ کرسکیں اور زمین کے دفاع میں خطرات کو کم کرنے کی حکمت عملی تیار کر سکیں۔ چناں چہ اب نو ممالک کے سائنس دانوں نے مستقبل میں سیاروں کے ٹکرانے کے اثرات کے نمونے کے لئے ایک نیا معیار قائم کر لیا ہے۔
سائنس جرنل میں شائع ہونے والی رپورٹ کے شریک مصنف اور شہابِ ثاقب کے ماہر پیٹر جینسکنز کے مطابق :’’ہمارا مقصد ان تمام حالات کو سمجھنا تھا جن کے نتیجے میں جھٹکے دار لہریں پیدا ہوئیں‘‘۔ ناسا کے ایمز تحقیقاتی مرکز، کیلی فورنیا میں شہابِ ثاقب کے ماہر اور ایس-ای-ٹی-آئی انسٹی ٹیوٹ میں کام کرنے والے جینسکنز نے اس واقعے کے بعد چند ہفتوں تک ماسکو میں سائنس کی روسی اکیڈمی کے کرہ ارض کی حرکیات کے انسٹی ٹیوٹ میں کام کرنے والی اولگا پوپووا کی قیادت میں ایک مطالعے میں حصہ لیا تھا۔
اولگا پوپووا کے مطابق:’’ یہ ہمارے لیے بہت اہم تھا کہ ہم ان بہت سے شہریوں سے ملتے جنہیں اس کا ذاتی تجربہ ہوا ۔ انہوں نے اس کی شان دار وڈیو زبنائیں اور یہ تجربہ ان کے ذہنوں میں تازہ ہے‘‘۔ آسمان پر ستاروں کے مقام کو استعمال کرتے ہوئے وڈیوز اور تصاویر کی جانچ پڑتال کرنے سے جینسکنز اور پوپووا نے اندازہ لگایا تھاکہ شہابِ ثاقب 19 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے ٹکرایا ۔ جب شہابِ ثاقب (زمینی) فضا میں داخل ہوا تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر پھیل گیا، جن کی رفتار(زمینی) سطح پر30 کلومیٹر تک پہنچ گئی تھی۔
ان لو گو ں کو جو اس وقت 100 کلو میٹر تک کے فاصلے پر تھے، اس وقت شہابِ ثاقب کی روشنی سورج سے بھی زیادہ دکھائی دے رہی تھی۔شدید گرمی کے نتیجے میں ملبے کے بہت سے ٹکڑے زرد رنگ کے چمک دار بادل سے گرنے سے پہلے ہی بھاپ بن کر فضا میں تحلیل ہو گئے تھے۔ سائنس داں سمجھتے ہیں کہ جو چھوٹے چھوٹے شہابِ ثاقب زمین پر گرے ان کا وزن 4000 سے 6000 کلو گرام تک تھا۔ ان میں 650 کلو گرام وزنی وہ ٹکڑا بھی شامل تھاجو 16 اکتو بر2013 کو جھیل چیبارکل سے پیشہ ور غوطہ خوروں نے یورل وفاقی یونیورسٹی کے محققین کی مدد سے برآمد کیا تھا۔
ناسا کے محققین کی 59 رکنی جماعت نے اپنے مطا لعے کے بعد یہ شبہ ظاہر کیا تھاکہ جھٹکوں سے پڑنے والی دراڑوں کی کثرت نے اس چٹان کے بالائی فضاء میں ٹوٹنے میں اہم کردار ادا کیا۔ چیلیابنسک اسٹیٹ یونیورسٹی کے محققین نے فراہم کیے گئے شہابِ ثاقبوں کا جھٹکوں سے پڑنے والی دراڑوں کے ماخذ اور ان کے طبعی خواص جاننے کے لیے تجزیہ کیاتھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جس تصادم سے پیدا ہونے والےجھٹکوں نے یہ دراڑیں پیدا کیں، ممکن ہے کہ وہ 4.4 ارب سال پہلے وقوع پذیر ہوا ہو۔ اس تحقیقی ٹیم کے مطابق یہ سب نظام شمسی کے قیام کے 115 ملین سال کے بعد ہوا ہوگا جب شہابِ ثاقبوں کا ایک بہت اہم تصادم ہوا تھا۔
جینسکنز کے بہ قول اتنے پرانے زمانے میں ہونے والے واقعات نے چیلیابنسک پر شہابِ ثاقب کے فضا میں ٹوٹنے کے طریقے پر اثر ڈالا جس سے نقصان دہ جھٹکے والی لہریں پیدا ہوئیں۔ماہرین کے مطابق زمین کی قریبی چیزوں کے ماخذ اور ان کی فطرت کو سمجھنے کے لئے تحقیق کی جا رہی ہے۔ یہ ناگزیر مطالعہ اس لیے ضروری ہے کہ زمین کے ساتھ ممکنہ طور پر تصادم کی راہ پر گامزن کسی چیز کا راستہ بدلنے کاطریقہ بہتر بنایا جا سکے۔
واضح رہے کہ ناسا نے 2013 کے اواخر میں اعلا ن کیا تھا کہ شہابِ ثاقب پر قابو پانے اورانہیں راستے سے ہٹانے کے سلسلے میں شہاب ثاقب کا ابتدائی منصوبہ پہلا مشن ہو گا۔ ناسا کا کہناتھاکہ شہابِ ثاقب اور دم دار ستاروں کے مطالعے سے سائنس دانوں کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ نظام شمسی کے ماخذ، زمین پر پانی کے ذرایع، حتی کہ نامیاتی سالمے، جس سے زندگی کی نشونما ممکن ہے، کی اصلیت کے بارے میں مزید جان سکیں۔
شہابِ ثاقب یا خلائی مخلوق
روس میں پیش آنے والے واقعے کے بعد ستمبر 2015 میں میکسیکو میں یوکاتان کے علاقے اشمل میں شہابِ ثاقب گرنے سے بجلی کا نظام متاثر ہواتھا۔اسی علاقے کے لوگوں نے اڑن طشتریاں اور شہابِ ثاقب گرنے کے کئی واقعات رپورٹ کیے ہیں جب کہ شہاب ثاقب گرنے کے بعد مبینہ طور پر ایک انسان کا جلا ہوا پتلا بھی ملا ہے جسے خلائی مخلوق قرار دیا جارہا ہے۔ اس کی 2 ٹانگیں بھی ہیں۔ اس واقعے سے متعلق ماہرین نے اس پراسرار مخلوق پر غور کرکے بتایا تھا کہ یہ شہابِ ثاقب کا جلا ہوا ٹکڑا ہے جو حرارت سے ایک خاص شکل میں ڈھل گیا ہے۔
تاہم خلائی مخلوق پر تحقیق کرنے والوں نے یہ بات نہیں مانی اور اڑن طشتریوں پر تحقیق کرنے والے ایک ماہر اسکاٹ ویئرنگ نے کہا کہ یہ خلائی مخلوق کا ڈھانچا نہیں بلکہ کوئی خلائی جہاز، روبوٹ یا خلائی سوٹ ہے، کیوںکہ شہابِ ثاقب کے گرنے سے جو حرارت پیدا ہوتی ہے اس سے کوئی لاش اس حالت میں برقرار نہیں رہ سکتی۔ شہابِ ثاقب کے تصادم کے بعد مقامی لوگوں نے بتایا تھا کہ انہیں ہر جگہ ٹکڑے ملے ہیں جس سے ان کی مراد کسی ٹیکنالوجی یا ایجاد کے ٹکڑے سے ہے۔ اس جگہ سے ایک گول سی چیزبھی ملی تھی جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ ایلین روبوٹ یا ہیلمٹ ہوسکتا ہے۔
برطانیہ کے خلائی سائنس دانوں اور انجینیئرز نے مستقبل میں زمین کے قریب سے گزرنے والے ایک بہت بڑے شہاب ثاقب، ایپوفس،کا جائزہ لینے کے لیے 2007 میں ایک مشن ڈیزائن کیا تھا۔تین سو میٹر چوڑا ایپوفس نامی یہ شہابِ ثاقب 2029 میں زمین کے بہت قریب سے گزرے گا۔ اسٹیونیج میں قائم ایسٹریئم کے سائنس داں اس شہابِ ثاقب کے مدار کا صحیح اندازہ کرنا چاہتے ہیں۔
برطانوی سائنس دانوں کے ڈیزائن میں ’ایپکس‘ کے نام سے ایک چھوٹےخلائی جہاز کی تیاری بھی شامل تھی۔ سائنس دانوں کے مطابق ایپوفس اس وقت دنیا کے لیے خطرہ نہیں ہے، لیکن اگر وہ زمین سے ٹکرایا تو دنیا میں بہت بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا سبب بن سکتا ہے۔سائنس دانوں کے خیال میں65 ملین سال پہلے دنیا میں بہت سی ذی حیات اور ڈائناسارز کی اموات کا سبب بھی ایسی ہی کسی بہت بڑی خلائی چیز کا زمین سے ٹکرانا تھا۔